Sunday 28 April 2013

(قسط نمبر 10)

جب ہم کھانے سے فارغ ہوئے تو سب ساتھیوں یعنی بوڑھے باورچی جن عبدالسلام اور دوسرے جنات کے بڑے سردار دیو اور پریوں نے صحابی بابا سے اصرار کیا کہ آپ ہمیں ایسا واقعہ سنائیں جو واقعی انوکھا ہو پہلے تو انہوں نے انکار کیا پھر جب میں نے عرض کیا اور ان کی خدمت میں درخواست کی تو انہوں نے ایک واقعہ سنایا جو قارئین کی نذر ہے۔
 
کہنے لگے یہ واقعہ خلیفہ مامون الرشید کے دور کا ہے اس کی خلافت تمام براعظم ایشیاءاور عرب تک پھیلی ہوئی تھی اس کی ایک لونڈی تھی جو واقعی حسن و جمال کا ایک پیکر اور کمال تھی۔ وہ دراصل نیشاپور کے قریب ایک گاوں جس کا نام مارض تھا وہاں کے ایک کسان کی بیٹی تھی۔ بچپن سے رنگ روپ دیکھ کر اس کی ماں اسے چھپاتی تھی اور ابھی وہ چھوٹی ہی تھی کہ اسے گھر سے زیادہ باہر نکلنے پر پابندی لگادی گئی تھی۔ یوں جوانی کے دن رات طے ہوتے گئے۔ گاوں کے نو جوان بلکہ ہر نوجوان کی خواہش تھی کہ اس سے شادی کرے لیکن اسکے ماں اور باپ کی خواہش تھی کہ بیٹی ایسے شخص سے بیاہی جائے جو صالح ہو چاہے غریب ہی کیوں نہ ہو۔ یہ بات خلیفہ کے ایک وزیر واثق عطا جودری کے ذریعے خلیفہ تک پہنچی اب جب خلیفہ نے اس کسان کے گھرمامون رشید کی اطلاع پہنچائی تو وہ حیران ہوئے کہ ہماری اتنی کیا اوقات ہے‘ خلیفہ تو ہم سے مقام اور مرتبے میں بڑا ہے‘ آخر کار انہوں نے وہ لڑکی خلیفہ کو دے دی۔ خلیفہ نے اسے اپنے حرم کا حصہ بنالیا اور سب لونڈیوں سے اونچا مقام دیا۔
 
وہ لڑکی خوش شکل تو تھی ہی‘ خوش اخلاق بھی تھی اس نے آتے ہی خلیفہ کی زندگی میں سب سے پہلی جو تبدیلی پیدا کی وہ یہ کہ خلیفہ کی زندگی غرباءمساکین اور پسے ہوئے طبقے کے لیے وقف ہوکر رہ گئی بلکہ اس سے زیادہ خلیفہ کی زندگی میں اور تبدیلی جو آئی وہ یہ تھی کہ خلیفہ نیک اعمال کیطرف متوجہ ہوا یونہی دن رات گزرتے گئے آپس کی محبت بڑھتی گئی لیکن ایک دن عجیب واقعہ ہوا کہ خلیفہ نے محسوس کیا کہ آہستہ آہستہ اسکے دل سے اپنی لونڈی کی محبت کم ہورہی ہے خود اس لونڈی نے محسوس کیا کہ محبت کی جو شدت پہلے تھی وہ شدت واقعتا کم ہورہی ہے اب خلیفہ مامون بھی پریشان بلکہ ایک بار توخلیفہ اس لونڈی کوکہہ بیٹھا کہ اب تیرے حرم میں میرا دل آنے کو نہیں چاہتا بعض اوقات کھچے اور دکھی دل کے ساتھ آتا ہوں۔ کیا کروں مجبور ہوکر آتا ہوں ورنہ جو پہلے دل اور محبت کی موجوں کے ساتھ آتا تھا اب معاملہ اسطرح نہیں کئی ہفتے گزر گئے۔ خلیفہ کے دربار میں ایک درویش شیخ سعید بن ثابت المروزی رہتے تھے جو کہ خود بہت بڑے عامل تھے ان سے تذکرہ ہوا توانہوں نے تین دن کی مہلت مانگی‘3 دن کے بعد انہوں نے انکشاف کیا کہ اس لونڈی کے حسن وجمال کی وجہ سے ایک طاقت ورعامل جن اس لونڈی کے پیچھے پڑگیا ہے جو اسے ہر صورت میں پانا چاہتا ہے اور اس نے کالے جادو کے ذریعے لونڈی کو آہستہ آہستہ خلیفہ سے دور اور خلیفہ کو لونڈی سے دور کرنا شروع کردیا ہے اور عنقریب ان دونوں میں نفرت ہوجائے گی اور لونڈی کو خلیفہ اپنے حرم سے نکال دے گا۔ یوں یہ اپنے گھر واپس کسان کے پاس چلی جائے گی اور اس کالے جن کا مقصد پورا ہوجائے گا۔ اس درویش نے ایک اور بات یہ بھی کہی کہ گھریلو جھگڑوں میں سارا ہاتھ جنات کا ہوتا ہے اورجھگڑوں میں انکے کئی مقاصد ہوتے ہیں۔ ضروری نہیں انکا مقصد عورت کو پانا ہو‘ انکے اور بھی کئی مقاصد ہوتے ہیں‘ اگر ان گھریلو جھگڑوں کا علاج کرنا ہے تو ان جنات کے دفع کرنے کاانتظام کرنا بہت ضروری ہے اسکی طرف اکثر لوگ توجہ نہیں دیتے جسکی وجہ سے کام اکثر طلاقوں‘ جھگڑوں‘ گھریلو بے سکونی کیطرف چلاجاتا ہے۔
 
بالکل یہی حال خلیفہ کا ہوا اب جب خلیفہ کو یہ پتہ چلا تو وہ پریشان ہوگیا ‘ لونڈی نے تو رو رو کر اپنا برا حال کرلیا۔ خلیفہ نے درویش کو حکم دیا کہ اب اس کیس کو حل کر اور اس کالے جن کا جادو ختم کر‘ درویش نے کہا کہ اس کالے جادو میں یہ جن اکیلا نہیں بلکہ اسکے ساتھ معاونت میںجنات کی ایک بڑی جماعت ہے‘ اس کے مستقل حل کیلئے مجھے بھی جنات کی مدد لینی پڑے گی جب تک جنات کی مدد نہ ہوگی ہرگز ہرگز مسئلہ حل نہ ہوسکے گا اب بادشاہ اور پریشان کہ اس کا کیا حل کیا جائے اس دور میں ایک درویش بصرہ میں رہتے تھے جن کا نام مالک بن عبید تھا بڑے اللہ والے تھے۔ دن رات سائلین کا ہجوم ان کے پاس رہتا تھا ہر شخص ان کے پاس سے اپنی مراد پاکر جاتا تھا‘ بہت متبع سنت اور صاحب شریعت تھے میں اس وقت ان کی محفل اور مجلس میں جایا کرتا تھا۔ خلیفہ کے درویش شیخ سعید بن ثابت ان سے ملنے آئے کہ یہ مسئلہ ہے آپ کے پاس لاتعداد جنات آتے ہیں کسی بڑے طاقت ور جن کے ذریعے یہ مسئلہ حل کرادیں چونکہ میں اس وقت موجود تھا اس لیے انہوں نے مجھے فرمایا کہ آپ یہ کام کردیں میں نے تعمیل حکم میں جی کہہ دیا اور کچھ دنوں کا وقت مانگا۔
 
اب میری کہانی سنیں کہ میں نے کس طرح اس کالے جن کا پیچھا کیا اور کس طرح اس جادو کو ختم کیا۔ سب سے پہلے میں نے درویش کو چند اعمال کی تراکیب بتائیں اور پھر اس درویش نے خلیفہ کو یہ تراکیب بتائیں یہ اعمال اور تراکیب اب تک میں نے بے شمار لوگوں کو بتائے اور کیے جس جس کو بتایا اسی کو فائدہ ہوا۔ پہلا طریقہ یہ ہے کہ اس عورت کے پرانے کپڑے لے کر چاہے ایک کپڑا ہو لیکن ہو زیادہ سے زیادہ استعمال کیا ہوا۔ اس کپڑے پر روزانہ سورہ فلق مع تسمیہ 200 بار صبح اور سورہ الناس 200 بار شام گھر کا کوئی فرد پڑھے لیکن توجہ خلوص اور دھیان کیساتھ اگر مریض خود پڑھے تو نفع زیادہ ہوگا ورنہ گھر کا کوئی فرد ہو باہر کا کوئی فرد یعنی رقم دے کر اگر پڑھایا تو ہرگز نفع نہ ہوگا۔ یہ عمل 90 دن کیا جائے 90 دن کے بعد اس کپڑے کو جلا کر اس کی راکھ صاف پانی میں بہادی جائے۔ (جاری ہے)

Wednesday 17 April 2013

قسط نمبر 9

میں عالم حیرت میں یہ باتیں سن رہا تھا اور حیران ہو رہا تھا کہ یاالٰہی آپ نے سورة فاتحہ میں اَلحَمدُ لِلّٰہِ رَبِّ العَالَمِینَ فرمایا، عالم نہیں فرمایا۔ واقعی ہمارے عالم سے ہٹ کر دوسرے عالم بھی ہیں جن کا ہمیں علم بھی نہیں۔ ان میں ایک نو جوان کہنے لگا آپ کی سائنس کی اگر ارب سال مزیدترقی کرجائے تو بھی ہماری ترقی سے آگے نہیں نکل سکتی پھر انہوں نے اپنی ترقی کے وہ کرشمات دکھائے جو میری آنکھ نے نا کبھی دیکھے، نہ کانوں نے کبھی سنے، نا کبھی ذہن نے سوچا۔ بس وہ عالم حیرت ہی تھا جو الفاظ کیا احساسات سے بھی بالاتر تھا۔قارئین پچھلی اقساط میںباورچی جن بابا کا تذکرہ آپ نے پڑھا، جنہوں نے عبدالسلام جن کی شادی میں تمام باراتیوں کو لذیز کھانے کھلائے یہ اسی نومبر کا واقعہ ہے جمعہ کا دن تھا میں فاتحہ کیلئے اتباع سنت میں قبرستان گیا، جب میںوہاں پہنچا تو دیکھا کہ ایک سفید ریش بوڑھا شخص حضرت احمد علی لاہوری کی قبر پر بیٹھا رو رہا ہے چونکہ میں اکثر فاتحہ کیلئے جاتا رہتا ہوں میں بھی ساتھ جا کر بیٹھ گیا میں نے مراقبہ کیا تو محسوس ہوا کہ حضرت لاہوری اپنی قبر میں موجود نہیں اور وہ مدینہ منورہ اور مکہ مکرمہ تشریف لے گئے ہیں بس تھوڑی ہی دیر میں حضرت لاہوری تشریف لے آئے میں نے سلام عرض کیا راز و نیاز کی باتیں ہوئیں بہت روحانی فیوض و برکات عطاءہوئے ،دل کی بہت سی باتیں ایسی تھیں جو میں نے ان کی خدمت عرض کرنی تھیں وہ عرض کیں۔ حضرت لاہوری نے ایک بات جو خاص طور پر زور دے کر فرمائی وہ یہ کہ سارے عالم میں حوادث، واقعات، مشکلات اور پریشانیاں روز بروز بڑھتی چلی جائیں گی۔ بے سکونی حد سے زیادہ بڑھے گی، بے چینی گماں سے بھی زیادہ لمبی ہوجائے گی، مال نہیں ملے گا، چیزیں نہیں ملیں گی پھر مال ہوگا تو چیزیں نہیں ہوں گی، گھر گھر لڑائی جھگڑے اور مایوسی اتنی بڑھ جائے گی کہ زندگی سے موت کو ترجیح دی جائے گی، میں نے حضرت لاہوری سے عرض کیا آخر اس کا کوئی حل بھی ہوگا۔ ٹھنڈی سانس لیکر فرمانے لگے صرف 3 چیزیں 1۔ فجر کی سخت پابندی اور اہتمام کے ساتھ ساتھ بقیہ نمازوں کی بھی پابندی 2۔ آیت کریمہ اور استغفار کاکثرت سے پڑھنا، 3۔ آنکھوں کی احتیاط یعنی گناہوں سے بچنا ،میں بیٹھاحضرت لاہوری کی باتیں سن رہا تھا۔میرے ساتھ بیٹھے بابا جی مسلسل رو رہے تھے تو اسی دوران میں نے حضرت لاہوری سے پوچھا کہ یہ میرے ساتھ بیٹھے بابا جی کون ہیںجو مسلسل رو رہے ہیں۔ حضرت لاہوری فرمانے لگے خود ہی تعارف کراتے ہو اور خود ہی لاتعلق ہوجاتے ہو، میں حیران ہوا تو فرمانے لگے۔ عبدالسلام کی شادی یاد ہے اور عبدالسلام کی شادی میں جو بوڑھے باورچی جن تھے وہ یہی تھے۔ یہ اس وقت انسانی شکل میں میرے پاس ملاقات کیلئے آئے بیٹھے ہیں، جب میں عالم دنیا میں تھا تو اس وقت یہ اور ان کی نسلیں میرے پاس بہت زیزدہ آیا کرتی تھیں، اچھے اور مخلص انسان ہیں میں نے حضرت سے پوچھا کہ حضرت میرے پاس جنات بہت زیادہ آتے ہیں کروڑوں سے زیادہ جنات میرے ہم نشین اور میرے ساتھی ہیں کونسی ایسی چیز میں اختیار کروں جس سے یہ خوش ہوں اور ان کی محبت اور زیادہ بڑھ جائے تو فرمانے لگے بس ایک چیز جس کو یہ بہت زیادہ پسند کرتے ہیں وہ خوشبو کچا گوشت، چاولوں کو ابالتے ہوئے جو خوشبو اٹھتی ہے یا پھر جانور کو ذبح کرتے ہوئے جو پہلا خون نکلتا ہے یہ چیزیں ان کو بہت پسند ہیں۔ میں نے مزید سوال کیا کہ کوئی اور چیز فرمائیں تو فرمانے لگے ان میں سے ہر جن اگر وہ نیک اور صالح ہے تو وہ ان چیزوں کو ضرور پسند کرے گا اور اگر وہ شیریر جنات ہیں تو پھر ان کوگوہر، کوئلہ جلی ہوئی لکڑی، نیم سوختہ بچوں کی چیخ و پکار، عورتوں کے آپس میں جھگڑے، میاں اور بیوی کے جھگڑے، مردار جانور کا خون، خنزیر اور کتے ابہت زیادہ پسندیدہ ہیں۔
 
میں نے حضرت لاہوری سے ایک اور سوال کیا کہ حضرت میرے پاس روحیں مختلف شکلوں میں بہت زیادہ تشریف لاتی ہیں یا میں ان کے پاس حاضر ہوتا ہوں ایک انوکھی چیز جو میں نے اکثر دیکھی ہے کہ جب وہ تشریف لاتے ہیں تو ان کے ساتھ صالح جنات کے لشکر ضرورت ہوتے ہیں ابھی پچھلے دنوں میری ملاقات حضرت امام زین العابدین رضی اللہ عنہ سے ہوئی ان کی ملاقات سے مجھے بہت زیادہ روحانی اور نورانی استفادہ ہوا یہ ہماری ملاقات کئی گھنٹے تک محیط رہی۔ تو حضرت امام زین العابدین رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی لاکھوں جنات موجود تھے۔ ان میں سے ایک جن نے ازراہ محبت مجھے خوشبو دی۔ یہ وہ خوشبو ہے جس میں ایک قطرہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے پسینہ اطہر کا ملا ہوا ہے اور اس خوشبو کے جو کمالات ہیں وہ میں بیان میں نہیں لاسکتا۔ اس کو میں نے سنبھال کررکھا ہوا ہے جب بھی میں وہ خوشبو میں لگاتا ہوں خوبصورت زیارتیں شروع ہوجاتی ہیں حضرت لاہوری فرمانے لگے دراصل جنات ان کے خدام ہوتے ہیں اور یہ خدام اپنے مخدوم کے ساتھ ہی چلتے ہیں مراقبے سے فارغ ہونے کے بعد میں نے باورچی جن کو اپنا تعارف کرایا اور عبدالسلام کی شادی کا ان کو حوالہ دیا میری بات سن کرباورچی جن بہت خوش ہوئے۔ بڑے اتفاق سے ملے ۔کہنے لگے بڑھاپا ہے ،نظر کمزور ہے، یادداشت پر اثر ہے، اس لیے پہچان نہ سکا۔ میں نے اصرار کیا میری دعوت قبول فرمائیں، گھر چلیں، انہوں نے ازراہ شفقت میری دعوت قبول فرمائی اس شرط پر جو گھر میں موجود ہوگا وہ ہی کھاوں گا تکلیف نہیں کریں گے جب میں گھر پہنچا تو جی میں آیا کہ عبدالسلام صحابی بابا، حاجی صاحب اور ان کی فیملی کو بھی بلالوں۔ میں نے ان کے دئیے ہوئے مخصوص کوڈ سے ان کو عرض کیا فرمانے لگے اس وقت ہم عمرہ کرنے کے بعد خیبر کے اس قلعہ میں بیٹھے ہیں جو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فتح کیا تھا ہم تھوڑی دیر میں پہنچ جاتے ہیں، ان کی محبت اور شفقت تھوڑی ہی دیر میں وہ 382 افراد یعنی پورا خاندان میرے گھر پہنچ گیا۔ خوب پرتکلف ان کے مزاج کی دعوت کی۔ (جاری ہے)

قسط نمبر 8

میں چونکہ ان کا پڑو سی ہو ں اور خود میری عبادت اور مراقبے میں خلل ہو تاہے میں نے اپنے عمل اور طریقے کئی آزمائے لیکن میں ناکام رہا آپ کے طریقے نے ان کا جھگڑا ختم کر دیا ہے اور نفر ت کی آگ محبت میں بدل گئی ہے لہٰذا یہ عمل لینے کے لیے آپ کو سارے عمل جو میں نے صدیوں کی محنت سے حاصل کیے ہیں وہ دینے کو تیار ہو ں اتنی دیر میں وہ اونٹ نما کتا جس پر میں سوار تھا بو لا ہا ں ضرور دیں میں نے پو چھا تم کون ہو کہنے لگا میں لا ہو ت کے عالم کی ایک مخلو ق ہو ں نہ انسان نہ جن ہو ں سورئہ اخلاص کا عامل ہو ں اب تک تمہاری دنیاکے حساب کے مطابق میں نے 673 ارب سورئہ اخلاص پڑھ لی ہے۔ پھر وہ سورئہ اخلاص کے جو فوا ئد اور فضائل بتانے لگے میں خود حیران ہو گیا پھر کہا کہ میں اب سدا تمہارا خادم ہوں ساری زندگی تمہا ری خدمت کر وں گا ۔ واقعی وہ ابھی تک میرا دوست ہے۔
 
آخر کا ر میں نے اسے جھگڑا ختم کرنے والی آیت کی اجازت دےدی وہ بہت خو ش ہوئے میر اما تھا چو م لیا پھر وہ جو اہر اور انمول ہیرے جو ان کے پا س تھے مجھے دینا شروع کیے۔ یقین جا نیے جن چیزو ں کو آج تک میں نے معمولی سمجھا تھا وہی میرے لیے قابل قدر بن گئیں میں سنتا جا رہا تھا اور حیران ہو رہا تھا بہت دیر تک وہ مجھ سے با تیں کر تے رہے پھر انہو ں نے مجھ سے دوستی کا عہد کیا اور ایک لفظ دیا کہ جب بھی آپ یہ لفظ سانس روک کر پڑھیں گے میں فوراً حاضر ہوجاﺅں گا۔ آج تک جب بھی ان کی ضرورت پڑی ہے میں نے وہی لفظ سانس رو ک کر صرف چند با ر کہا تو وہ عامل جن میرے پا س حاضر ہو تے ہیں ۔
 
سندھی آدمی کی شکل و صورت اور سندھی آدمی کے لباس اور لہجے میں آتے ہیں وہ کام جو ناممکن ہو کلام الٰہی سے منٹوں میں سلجھا دیتے ہیں میں عامل جن کو بار بار تکلیف نہیں دیتا لیکن اس باکمال شخصیت کو یاد ضرور کرتا ہوں۔ میرے پاس ایک سابقہ حکمران آئے کہ میرا فلاں کام کرا دیں میں نے اس عامل جن کو بلایا اور ان کا کام کرا دیا اب وہ حکمران فوت ہوگئے ہیں۔
 
اب سنیے اس جھگڑے والے خاندان کی کہانی! جب میں عامل جن سے اجازت لے کر رخصت ہونے لگا تو انہوں نے مجھے ایک پتھر دیا جو چکنا، چھوٹا سا پتھر تھا بظاہر عام سا لیکن اس کے فوائد مجھے بتائے کہ آپ جب بھی اس کو زبان لگائیں گے تو یہ پھل، کھانے یا ڈش کا ذائقہ دے گا اور اسی پھل یا ڈش سے پیٹ بھرے گا اور اس کے ذائقے کا ڈکار آئے گا میں نے سینکڑوں بار اس پتھر کو آزمایا واقعی مفید پایا آج تک وہ پتھر میرے پاس ہے۔ ایک بار ایک غریب آدمی حج پر جارہا تھا اسے میں نے غائب ہونے والی آیت بتائی کہ وہ بغیر رقم کے چلا گیا اور پتھر دیا 82 دن وہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں رہا اور یہی پتھر اس کی خوراک کی ساری ضروریات پوری کرتا رہا۔
 
میں یہ پتھر لے کر رخصت ہوا تو تھوڑے فاصلے پر وہ جھگڑے والا خاندان میرے تعاقب میں آیا کہنے لگا مجھے اس عامل جن نے بتایا کہ آپ نے ہمارا جھگڑا ختم کرایا اب ہم میاں بیوی بے شمار بچوں سمیت آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں ہم غریب ہیں اور تو خدمت کر نہیں سکتے آپ جب بھی ٹھٹھہ کے مکلی کے قبرستان آئیں ہمارے گھر سے کھانا کھایا کریں۔ میں نے ان سے کئی بار کھانا کھایا حلال اور طبیب کھانا ہوتا ہے اور خوب لذیذ ہوتا ہے۔ جب بھی جاتا ہوں ضرور کھاتا ہوں سالہا سال سے وہ خوش و خرم زندگی بسر کررہے ہیں۔
 
وہ کتا نما اونٹ جب سارے قبرستان کی سیر کرا چکا اور قدرت کے عجائبات دیکھا چکا تو اب اس نے اڑنا شروع کر دیا، اڑتے اڑتے ایک بہت بڑی غار میں گیا اب اس کی شکل ابابیل کی طرح ہو گئی اور اندھیرے غار میں اڑتے اڑتے بہت دیر کے بعد ایک نیا جہاں اور نیا عالم آگیا وہ ایسا عالم تھا کہ میں اس عالم کو الفاظ کے نقشے میں بیان نہیں کر سکتا وہ انسان نہیں تھے وہاں جنات نہیں تھے بس کوئی اور مخلوق تھی جس

قسط نمبر 7

 اکثر راتو ں کو مجھے محسو س ہوتا ہے کہ کوئی میرے چہرے اور جسم پر پھول پھیر رہا ہے پھرمیری آنکھ کھل جا تی ہے یہ سالہا سال سے آزمائی ہوئی اس با ت کی علا مت ہے کہ اب صحابی بابا اور حاجی صاحب کی آمد ہے واضح کر تا جا ﺅ ں ان کی حاضری کے کئی اندا ز ہیں لیکن یہ انداز بھی کبھی ہو جا تاہے ایک اندا زیہ بھی ہے کہ مجھے چیل کی آواز آتی ہے یا کبھی غرارنے کی آواز جیسے کوئی چیتا یا شیر غرار رہا ہو ۔
 
ایک با رمیرے جنا ت دوست میرے پا س بیٹھے مجھے غیا ث الدین بلبن مغل با دشاہ کے چشم دید واقعات سنا رہے تھے کہ وہ رعایا کے ساتھ کیسا تھا اور اس کے دن رات کیسے تھے کہنے لگے انکے دور میں ایک بزرگ تھے جن کا نام بھی غیاث الدین افرا دی تھا بہت صاحب کمال پہنچے ہوئے بزرگ تھے با د شاہ ان کے پا س بھی جا کر رات گزارتا ۔ کبھی دن میں چھپ چھپا کر جا تا جب بھی جا تا اسے بڑی ہستیو ں کا دیدار ضرور ہوتا ایک بار با دشاہ نے پوچھا کہ مجھے دیدار کیو ں ہو تاہے یہ چیز محل میں نہیں ہو تی تو بادشاہ کو افرا دی بزرگ نے بتایا دراصل ہم رزق حلا ل دیتے ہیں اور سا را دن سورئہ اخلا ص کا ورد کرتے ہیں فرمایا جو سورئہ اخلاص کا بے شما ر ورد روزانہ ہزارو ں کی تعداد میں کر تا ہے تو دو سال کے بعد اس کے پا س شاہ جنات نیک صالح جنات کی ڈیوٹی لگا دیتے ہیں ۔
 
جو ا سکے ساتھ بیٹھ کر ذکر کرتے ہیں اور اس کے ہر کام میں اس کی خدمت کر تے ہیں حتی کہ دن رات اس کی غلامی کرتے ہیں ۔ خو د میرے ساتھ ایسا ہواکہ میرے مر شدنے میری ڈیوٹی لگائی کہ میں ٹھٹھہ کے قبرستان مکلی میں سورئہ اخلاص مع تسمیہ طویل دنو ں کے لیے بہت بڑی مقدار اور بہت قلیل خوراک کے ساتھ دن را ت پڑھوں چونکہ ان کی اجازت تھی پھر دعا اور توجہ تھی تو یہ عمل میں نے کیا اور خو ب محنت و دھیان اور یکسوئی سے کیا دوران عمل مجھے حیر ت انگیز واقعات کا سامنا کر نا پڑا ۔
 
ایک بار عمل کر رہا تھا کہ میں نے محسوس کیا کہ کمبل جو کہ میں نے سخت سر دی کی وجہ سے اوڑھی ہوئی تھی اسمیں کچھ سرسراہٹ اور حرکت محسوس کی ۔ میں نے کمبل کا کونہ اٹھا یا تو ایک سانپ بہت بڑا کنڈلی ما ر کر بیٹھا ہو اتھا میں نے اٹھ کر اسے جھا ڑا وہ بھا گ گیا میں پھر بیٹھ گیا تھوڑی دیر بعد پھر اس طر ح دوسرے کو نے میں سانپ کی حرکت محسو س ہوئی اب میں اٹھا نہیں بلکہ اپنے عمل کی توجہ کو سلطان الاذکا ر کی شکل میں لا کر اس کی طرف توجہ کی واقعی محسو س ہوا کہ اثر شرو ع ہو گیا ہے ۔ چندمنٹ ایسا کیا ہی تھا کہ پھر دیکھا کہ ایک جلی ہوئی رسی اور اسکی را کھ پڑی ہوئی تھی ۔ میں نے وہ راکھ جھا ڑ دی پھر ایک بار عمل کر رہا تھا کہ چھوٹا سا کتے کا بچہ سر دی سے ٹھٹھراتا ہوا اور کو ں کو ں کر تا ہو ا میری موٹی کمبل میں گھس گیا میں نے اس کو کمبل میں ج

Tuesday 16 April 2013

قسط نمبر 6

ہم یہ میوہ جات بھی کھا رہے تھے اور درود شریف کے واقعات بھی بیان کر رہے تھے۔ باورچی جن نے اپنے ہاتھوں سے اپنی آنکھوں کی بھنویں اٹھائیں اور بولے کہ یہ اس وقت کی بات ہے جب میں جوان تھا تو مجھے ایک درویش جن نے جو کہ بہت بوڑھے تھے مجھے اس درود شریف ‘بالکل انہیں الفاظ سے شناسائی دی تھی اور میں نے زیادہ نہیں پڑھا تھوڑا پڑھا لیکن اس کے پڑھتے ہی اس کی جو برکات مجھ پر کھلیں میں خود حیران ہو گیا۔ ایک بار میرے گھر میں کھانے کو کچھ نہیں تھا کوئی روزگار بھی نہ لگا۔ میرے دل میں خیال پیدا ہوا میں کسی انسان کی کوئی چیز چرا لوں یا کسی انسان کی جیب سے رقم یا کوئی قیمتی چیز لے لوں لیکن پھر خیال ہوا کہ کیوں نہ یہ درود شریف یعنی اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ کَمَا تُحِبُّ وَ تَرضٰی لَہ پڑھوں۔ میں نے بکثرت یہ درود شریف پڑھنا شروع کر دیا۔ اتنی طاقت ‘ توجہ ‘ دھیان کہ مجھے پسند آ گیا اور جن ہونے کی وجہ سے میرے بدن سے شعلے نکلنا شروع ہو گئے۔ بس جب شعلے نکلے تو اللہ تعالیٰ کی ایسی نقد مدد آئی کہ خود میری عقل حیران تھی کہ مجھے پہلی دفعہ اپنی جوانی میں اس کا احساس ہوا کہ درود شریف میں ایسا کمال ‘ ایسی برکات اور ایسے ثمرات ہیں آج تک میں نے اس درود شریف کو نہیں چھوڑا ۔ باورچی جن نے ایک واقعہ اور سنایا کہ نیشاپور میں ایک صالح مسلمان کو پریشان حال دیکھا۔ عیال دار بچے بہت زیادہ تھے‘ روزگار کی کمی پھر ایک شریر اور شیطان جن نے اس کے گھر کے حالات اور بگاڑے ہوئے تھے ۔ میں ایک سائل بن کر اس کے دروازے پر گیا۔ صدا لگائی‘ اس نے مجھے جو گھر میں چند کھجوریں اور آدھا درہم پڑا تھا وہ دیا میں نے اسے نصیحت کی کہ دن رات یہ درود شریف اور انہیں الفاظ کے ساتھ بیٹھ کر پڑھو بلکہ سارا گھر پڑھے ۔ تجھے اللہ تعالیٰ بہت رزق ‘ عزت اور کمال عطا فرمائے گا۔ وہ رو پڑے کہ اتنا بھی نہیں کہ گھر میں کچھ کھا سکیں‘ ہمارے بڑے بزرگ اور درویش تھے لیکن یہ حالات ہم پر آ پڑے ہیں‘ کسی سے اظہار خیال نہیں کر سکتے ۔ میں نے وہ آدھا درہم اور کھجور واپس کر دئیے اورکہا کہ میں تو آپ خدمت کےلئے آیا ہوں۔ کچھ عرصہ کے بعد میں نے ان کے گھر کے اندر رزق اور نعمتوں کی وہ وسعت دیکھی جو کمال سے باہر ہے۔ پھر باورچی جن سانس لینے کےلئے رکے تو عبدالسلام نے بتایا کہ مجھےعبداللطیف جن (اور اس کا تذکرہ کرتے ہوئے اپنے والد حاجی صاحب کی طرف دیکھا) انہوں نے فرمایا ہاں میں اسے جانتا ہوں تو عبدالسلام نے بتایا کہ اگر کسی صالح درویش کی قبر پر جائیں اس کے سرہانے سورہ بقرہ کا پہلا رکوع اور اس کی پائنتی سورہ بقرہ کا آخری رکوع ‘ پھر اس قبر کے دائیں بیٹھ کر یہ درود شریف نہایت کثرت سے پڑھیں تو وہاں سے انسان بہت کچھ نورانیت‘ کمالات بلکہ بہت کچھ لے کر (حقیقت میں اللہ تعالیٰ ہی عطا کرنے والا ہے) اٹھتا ہے۔ بندہ لاہوتی بتاتا چلے کہ میں نے بھی یہ عمل یعنی باورچی جن والا کئی دفعہ آزمایا ‘ ایک بار ایک قبرستان میں جا رہا تھا وہ قبرستان لاہور کا میانی صاحب ہے۔ وہاں ایک قدیم قبر پر یہ عمل کیا تو صاحب قبر نے کشف میںبتایا کہ اگر میاں بیوی کی نفرت ہو یا گھر میں جھگڑے ہوں یا آپس میں نفرت ہو تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی آگ بجھانے والا عمل قُلنَا یَا نَارُکُونِی بَردًا وَّسَلَامًا عَلٰی اِبرَاہِیمَ عشاءکی دو سنتیں پڑھ کر یہ آیت 41 بار پڑھیں۔ پھر وتر پڑھیں۔ اول آخر درود شریف 7 بار پڑھیں۔ 40دن ایسا کریں ناغہ نہ کریں۔ (قارئین اس عمل اور درود شریف کی اجازت علامہ لاہوتی پراسراری سے ضرور لیں تب فائدہ اور باکمال نفع ہوگا)پھر اس کا کمال دیکھئے ‘ ناغہ کرنے والے کو فائدہ نہ ہوگا یا پھر کم ہو گا۔ میں نے یہ عمل پھر کئی لوگوں کوبتایا ‘ کئی جنات کو بتایا بلکہ کئی جنات نے تو یہاں تک بتایا کہ اس عمل سے ہمارے شریر جنات کا جادو اور حملہ نہیں چلتا۔ کئی گھرانے جو اجڑنے کے قریب ہو گئے تھے یا کئی لوگ جن کو غصہ زیادہ آتا تھا یا جن کا بلڈ پریشر ہائی ہوتا تھا۔ انہوں نے 40 دن‘ 90 دن یا 120 دن آزمایا اور اس کا فائدہ ہوا۔ اسلام آباد کا ایک سابقہ وفاقی وزیر کہنے لگا کہ علامہ صاحب مجھے یاد نہیں کہ میں نے کبھی کوئی اس طرح کا عمل کیا ہو لیکن یہ کیا اور اس کا واضح کمال کہ میں سب ادویات چھوڑ چکا ہوں اور آج بالکل تندرست ہوں‘ یہ باتیں میری ہیں‘ اب پھر میں آپ کو جنات کی محفل میں لے چلتا ہوں‘ جہاں ہم سب میوے کھا رہے تھے اور درود شریف کی برکات بیان کر رہے تھے۔ حاجی صاحب نے اپنا تجربہ درود شریف کا بیان کیا کہ ایک بار میں دوران سفرجبکہ ان دنوں میں کپڑے کا کام کرتا تھا ایک بار ایسا ہوا میرے 530 تھان کپڑے کے پڑے تھے۔ ان کو دیمک لگ گئی‘ میں پریشان ہوا کہ لاکھوں کا نقصان ہو گیا‘ یکا یک میرے دل میں ایک خیال آیا کہ کیوں نہ درود شریف پڑھا جائے۔ الحمد للہ میں روزانہ 70 ہزار درود شریف پڑھ لیتا ہوں۔ میں نے اور میرے گھر والوں نے بھی درود شریف پڑھنا شروع کر دیا۔ صرف چند ہی دنوں میں ایک گاہک آیا میں نے اس کے ساتھ کپڑے کا سودا کیا لیکن پہلے بتا دیا کہ اس کو دیمک لگ گئی ہے اس نے مال دیکھنا چاہا جب مال دیکھا تو وہ تو بالکل درست اور پہلے سے زیادہ خوبصورت اور شاندار تھا میں حیران ہوا اور درود شریف کے کمالات پر اش اش کر اٹھا

قسط نمبر 5

ایک ایسے شخص کی سچی آپ بیتی جو پیدائش سے اب تک اولیاءجنات کی سرپرستی میں ہے۔ اس کے دن رات جنات کے ساتھ گزر رہے ہیں۔ ماہنامہ عبقری کے اصرار پر قارئین کیلئے سچے حیرت انگیز انکشافات قسط وار شائع ہونگے لیکن اس پراسرار دنیا کو سمجھنے کیلئے بڑا حوصلہ اور حلم چاہیے۔
 
ایک بار صحابی بابا نے فرمایا کہ میں مدینہ منورہ میں اس وقت جب عباسی حکومت کا دور تھا‘ زیارت روضہ رسول کرنے گیا جب وہاں پہنچا اس وقت مسجد نبوی شریف کے امام شیخ و اسع شریف اللہ رحمتہ اللہ علیہ تھے اور مسجد مٹی کی اینٹوں سے بنی تھی اور اس پر چھت تھی ‘ اچھی اور خوبصورت بنائی گئی تھی۔ میں انسانی شکل میں شیخ واسع شریف اللہ رحمتہ اللہ علیہ سے ہمیشہ ملاقات کرتا تھا ۔ شیخ واسع رحمتہ اللہ علیہ لمبی عمر کے بڑے اور وقت کے امام الحدیث و القران تھے۔ ان کی قرات بہت خوبصورت تھی۔ ان کی آواز اتنی اونچی تھی کہ جمعہ کے دن مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم شریف میں گورنر مدینہ اور سارے عوام یعنی دیہاتوں کے بدو بھی جمعہ پڑھنے آتے لیکن شیخ واسع رحمتہ اللہ علیہ کو کبھی بھی مکبر کی ضرورت پیش نہ آتی۔ ان کی صالحیت کا یہ عالم تھا کہ وہ دن رات میں یہ درود شریف اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ کَمَا تُحِبُّ وَ تَرضٰی لَہ 70 ہزار پڑھ لیتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے ہروقت میں برکت عطا کی تھی۔ صحابی بابا مزید فرمانے لگے کہ میں نے آنکھوں سے ان کی بے شمار کرامات دیکھی ہیں۔ ایک بار ایک شخص مسجد نبوی شریف میں نماز پڑھنے آیا‘ بارش ہوئی چونکہ کمرے کے علاوہ باقی صحن اور ہر جگہ مٹی کا فرش تھا کیچڑ کی وجہ سے وہ پھسلا اور اس کی ران کے ساتھ کولہے کی ہڈی ٹوٹ گئی‘ ہڈی ٹوٹنے کی آواز کئی لوگوں نے سنی‘ پھر کیا تھا کہ اس کی پکار ‘ چیخیں اور فریادیں تھیں۔ ہر شخص اس کو زمین سے اٹھانے کی کوشش کر رہا تھا لیکن اس کا توازن برقرار نہ رہ سکا۔ وہ کوشش کرتا لیکن پھر گر جاتا‘ شیخ واسع رحمتہ اللہ علیہ کو اطلاع دی گئی ‘ وہ عصا ٹیکتے اپنے حجرے سے باہر آئے اور میں نے ان کے ہونٹوں کو حرکت میں دیکھا‘ آتے ہی پھونکا‘ ہاتھ بڑھایا اور فرمانے لگے اللہ کے حکم سے اٹھ ‘ چلاتا ہوا شخص پل بھر میں تندرست ہو گیا اور شیخ کا ہاتھ پکڑ کر سیدھا کھڑا ہو گیا‘ چونکہ ہڈی ٹوٹ کر گوشت کو چیرتی ہوئی باہر نکل آئی تھی اور بہت سارا خون پھیل چکا تھا‘ صحابی بابا نے لمبا سانس لیا اور ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ فرمانے لگے کہ میں نے دیکھا کہ زخم مل گیا اور ہڈی جڑ گئی اور وہ شخص بالکل تندرست چلنے لگا۔ صرف اس کے کپڑوں اور زمین پر خون لگا جسے بعد میں دھو دیا گیا ۔ چونکہ شیخ واسع رحمتہ اللہ علیہ مجھ سے محبت کرتے تھے میں نے پوچھا کہ شیخ یہ آپ نے کیا پڑھ کر پھونکا فرمانے لگے درود شریف بیٹھا پڑھ رہا تھا‘ چلانے اور چیخنے کی آواز آئی‘ بس وہی درود پڑھ کر پھونک دیا‘ اسکے پھونکتے ہی اس کی ہڈی اور گوشت جڑ گیا ‘ زخم کا نشان تک نہ رہا۔ میں نے اس درود شریف کو جس کیلئے اور جس مقصد کیلئے پڑھ کر دم یا دعا کی ہے وہی مقصد پورا ہو گیا۔ شیخ واسع رحمتہ اللہ علیہ نے مزید فرمایا کہ گورنر مدینہ عمار بن وھب کی بیوی قریب المرگ تھی معا لجین نے اسے موت کا کہہ دیا تھا کہ اس کا جگر اور دل بالکل ختم ہو گیا ۔ایک رات جب میں حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ اطہر پر بیٹھا ہوا تھا اور صلوٰة و السلام پڑھ رہا تھا تو گورنر میرے قدموں میں گر گیا کہ کوئی عمل یا دعا فرمائیں کہ میری بیوی صحت یاب ہو جائے۔ میں نے مکبرات درود شریف پڑھ کر یہ دعا کی اور گورنر کی بیوی 3 دن میں صحت یاب ہو گئی۔ ایک بار تمام مدینہ منورہ شہر کے کنویں پانی سے خشک ہو گئے‘ سخت قحط سالی کہ بارش بھی نہیں ہو رہی تھی‘ ہر طرف موت ‘ ویرانی اور خشک سالی تھی ‘ افراتفری یہاں تک پہنچی کہ جانور اور انسان مرنے لگے۔ لوگ میرے پاس آئے کہ دعا فرمائیں ‘ میں روضہ اطہر پر گیا اور جا کر دعا کی ‘ جب واپس آیا تو ہر کنواں پانی سے لبریز اور خوب بارش ہوئی۔ سب کچھ اس درود شریف کی برکت سے ہوا۔
 
صحابی بابا فرمانے لگے وہ قحط اور خشک سالی مجھے یاد ہے اور واقعی میں خود موجود تھا کہ میں نے لوگوں کو دیکھا کہ انہوں نے شیخ واسع رحمتہ اللہ علیہ سے دعا کی درخواست کی ۔ انہوں نے روضہ اطہر پر یہ درود شریف پڑھا اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی ۔ صحابی بابا نے فرمایا کہ اس درود شریف کے خود میرے بے شمار تجربات ہیں۔ ایک واقعہ سنایا کہ جب محمود غزنوی نے ہندوستان پر حملہ کیا اس وقت میںاس شخص کے ساتھ تھا کیونکہ وہ بادشاہ کم درویش زیادہ تھا وہ ہر وقت اپنے مرشد شیخ ابوالحسن خرقانی رحمتہ اللہ علیہ کا یہ درود شریف پڑھتا رہتا تھا‘ روزانہ ہزاروں کی تعداد میں اس کا یہ درود شریف پڑھا جاتا تھا۔ ایک بار ایک کافر نے نقب لگا کر اور غزنوی کے نگہبانوں سے پوشیدہ ہو کر اس کو قتل کرنا چاہا لیکن اس کے کمرے سے دور ہی وہ 3 آدمی قتل ہو گئے۔ جب ان کی لاشیں دیکھیں تو ان کے ساتھ ایک پرچہ پڑا ہوا تھا جس میں لکھا ہوا تھا کہ ہم اس درود شریف کے خادم اور غلام ہیں۔ جو اس درود شریف سے محبت کرےگا ہم اس کی حفاظت کرینگے اور اس کے دشمن سے خود مقابلہ کرینگے۔ محمود غزنوی نے اس درود شریف کی برکت سے ہر جگہ فتح پائی۔
 
ہم بیٹھے باتیں کر رہے تھے کہ حاجی صاحب اور ان کا بیٹا عبدالسلام اور باورچی بوڑھا جن اچانک آ گئے ‘ ملاقات ہونے پر خوش ہو گئے‘ حاجی صاحب اپنے ساتھ غزنی کے جنگلات کے خشک میوے بھی لائے۔ کہنے لگے ہم حضرت علی ہجویری رحمتہ اللہ علیہ المعروف داتا صاحب لاہور والے کے پیدائشی گھر گئے تو ہمیں وہاںکے جنات جنہوں نے بچپن میں حضرت علی ہجویری کے ساتھ وقت گزارا‘ انہوں نے میوے دیئے ہم سوچا ہم بھی آپ کی محفل میں شریک ہو جائیں۔ ہم سب نے اکٹھے وہ میوے کھائے۔ صحابی بابا کی محبت پر حیرانی ہوئی کہ وہ چن چن کر میوے مجھے دیئے جا رہے تھے اور زیادہ کھانے پر اصرار کر رہے تھے۔ اسی دوران حاجی صاحب فرمانے لگے کیوں نہ ہم خود حضرت علی ہجویری رحمتہ اللہ علیہ کی روح کو بلالیں۔ یہ کہنا تھا کہ حضرت علی ہجویری کی روح حاضر ہو گئی ایک سفید ہلکی پیلی روشنی پھیل گئی اور خاص قسم کی خوشبو (یہ روشنی اور خوشبو اس وقت آتی ہے جب حضرت ہجویری رحمتہ اللہ علیہ تشریف لاتے ہیں اور میں عرصہ دراز سے اس خوشبو اور نورانی روشنی سے واقف ہوں) ہر سو بکھر گئی‘ گفتگو پھر درود شریف کی برکات پر شروع ہو گئی۔ میوہ جات جو شاید میں نے اپنی زندگی میں کبھی بھی نہیں دیکھے اور کھائے اور نہ سنے جو کہ واقعی لذیذ اور نہایت ہی خوشبودار ‘ خوش ذائقہ تھے۔ (جاری ہے)

قسط نمبر 4

ایک ایسے شخص کی سچی آپ بیتی جو پیدائش سے اب تک اولیاءجنات کی سرپرستی میں ہے۔ اس کے دن رات جنات کے ساتھ گزر رہے ہیں۔ ماہنامہ عبقری کے اصرار پر قارئین کیلئے سچے حیرت انگیز انکشافات قسط وار شائع ہونگے لیکن اس پراسرار دنیا کو سمجھنے کیلئے بڑا حوصلہ اور حلم چاہیے۔
 
دورے‘ سر میں چکر‘ آپس میں نفرت ‘ کدورتیں یہ سب کچھ بڑھتا چلا گیا۔ لیکن انہوں نے ڈاکٹروں کی طرف رخ کیا ‘ رب کی طرف رخ نہ کیا۔ ویسے بھی جس طرح انسانوں میں نیک وبد ہوتے ہیں۔ ہمارے جنات میں تو معاملہ اس کے برعکس ہے۔ وہاں بد زیادہ اور نیک کم ہیں کیونکہ جنات کی آبادی انسانوں سے کھربوں زیادہ ہے۔ اس لئے نیک بھی اربوں سے کم نہیں تو ہمارے شریر جنات حسین اور خوبصورت لڑکیوں کی طرف اور وہ خوبصورت لڑکیاں جو خودننگے بدن اور ننگے سر رہتی ہوں‘ ننگے بدن سے مراد یہ موجودہ فیشنی لباس‘ باورچی جن کی آواز میں ارتعاش شروع ہو گیا۔ جیسے وہ تھک گئے ہوں‘ میں نے انہیں عرض کیا کہ کچھ پانی پیش کر دوں‘ فرمانے لگے نہیں پانی نہیں چاہیے کیونکہ مجھے پیاس نہیں‘ مجھے توانسانوں پر غصہ آ رہا ہے کہ وہ ہماری شرارت کے دروازے کیوں کھولتے ہیں‘ بند کیوں نہیں رکھتے اور آسمان کی طرف گھورتے ہوئے بولے اس پیر صاحب اور بزرگ کے گھر کو ہم نے جی بھر کے ستایا ‘ شاید ان کی دین اسلام کی طرف واپسی ہو جائے لیکن انہوں نے تدبیر اختیار کی کہ کسی طرح ان سے آفات ٹل جائیں وہ کیسے ٹل سکتی ہیں‘ ان آفات کی تو ہم دن رات خود نگرانی کر رہے ہیں۔ ایک بار ہم نے ان کا بچہ اٹھا کر دیوار سے مار دیا۔ اس کا سر پھٹ گیا‘ اس کی ایک آنکھ ضائع ہو گئی۔ ایک عامل نے کہا کہ تمہارے اوپر جادو ہے اور تمہارے گھر میں جنات ہیں۔ انہوں نے گھر میں حسب ترتیب سورة بقرہ پڑھنا شروع کردی اور آیت الکرسی کا ورد اپنے مریدین کے ذریعے کرانا شروع کر دیا۔ خود پھر بھی نہ کیا۔ یہ کلام شریروں کیلئے ہے‘ ہم کوئی بدمعاش ‘ شریر یا شیطان تھے جو ہم پر اثر کرے‘ ہمیں غصہ آیا کہ یہ خود اعمال اور رب کی طرف کیوں نہیں آتے لیکن محسوس ہوتا تھا کہ ان کے دل پر زنگ کچھ زیادہ لگ گیا تھا۔ ان کے اندر کے پردے اور دروازے بند ہو گئے تھے۔ ان کے کان صرف موسیقی سنتے تھے۔ باقی آوازوں کیلئے بند ہو گئے تھے۔ باورچی جن نے پہلو بدلہ اب غصے سے ان کے منہ سے شعلے نکل رہے تھے اور آواز میں تلوار کی سی تیزی بڑھ گئی تھی۔ ادھر حاجی صاحب کے بیٹے عبدالسلام جن کی دلہن کی رخصتی کی تیاری ہو رہی تھی۔ میں یہ سب منظر بھی دیکھ رہا تھا اور باورچی جن کی حیرت انگیز باتیں اور تجربات سن رہا تھا۔ اسی دوران ایک خوفناک دھماکہ ہوا اور ہر طرف سفید رنگ کا دھواں اور شور چھا گیا‘ میں چونک پڑا مجھے باورچی جن نے اپنے سینے سے لگا لیا اور تسلی دی کہ کچھ نہیں یہ در اصل دولہا اور دلہن کیلئے لاہوتی سواری آئی ہے۔ یہ اس کی آمد کی آواز ہے کہ اس کی رفتار بجلی سے زیادہ تیز اور کڑک سے زیادہ بھاری ہوتی ہے۔ یہ سواری صرف جنات کے سردار استعمال کرتے ہیں یہ سواری جنات کے علاوہ ایک اور عالم ہے اسکی بھی مخلوق ہے چونکہ سرداروں کے اس عالم سے رابطے ہوتے ہیں انہوںنے حاجی صاحب کے اعزا ز میں یہ سواری بھیجی ہے یہ سواری اڑتی ہے۔ پھر حاجی صاحب مجھے لے گئے میں حیران ہو گیا اس کا منظر مجھے یاد آیا کہ جیسے کوئی بہت میلوں میں پھیلا ہوا کئی منزلہ ایک محل جس کی شکل تقریباً بحری جہاز سے ملتی جلتی تھی۔ ہر طرف اس کی روشنیاں اور قمقمے اور فانوس تھے۔ خوب چہل پہل تھی ‘ وہ محل ہلکا ہلکا ایسے ہل رہا تھا جیسے بڑی کشی پانی میں تیرتے ہوئے ہلتی ہے۔ حاجی صاحب مجھے کہنے لگے کہ اب ہم واپس بارا ت لے کر اسی لاہوتی محل میں جائینگے۔ اس سے قبل ہم جن سواریوںپر آئے تو وہ سواریاں شروع سے اب تک دیکھ رہا ہوں اور تقریباً تمام بڑے جنات وہی سواریاں استعمال کرتے ہیں۔ ان کا کچھ حلیہ آپ کی خدمت میں عرض کرتا ہوں۔ گدھ نما بڑے جانور جو کسی بڑے ہوائی جہاز سے بھی بڑے ہوتے ہیں۔ جن کے بڑے بڑے سینکڑوں پر ہوتے ہیں۔ ہر پر میں ایک گھر نما کمرہ ہوتا ہے اور ایک کمرے سے دوسرے کمرے کے درمیان راستہ ہوتا ہے۔ یہ گدھ چھوٹے بھی ہوتے ہیں اور بڑے بھی ‘ رفتار کا اندازہ آپ یوں لگا سکتے ہیں کہ آپ پاکستان کے کسی شہر یا میرے شہر سے مدینہ منورہ صرف 17 منٹ میں پہنچ جاتے ہیں۔ میرا حاجی صاحب اور صحابی بابا کے ساتھ سینکڑوں سفر‘ کئی شہروں اور مکہ مدینہ ‘ بیت المقدس کے ہوئے ہیں یہ سب سفر لاہوتی ہوتے ہیں۔
 
ابھی چند ماہ پہلے کی بات ہے میں رات کو دیر سے سویا کہ میرا بچہ کان کے درد سے روتا رہا‘ سنت کے درجے میں دوائی ڈالی‘ دم کیا اسے سکون ہو‘ ابھی لیٹا ہی تھا کہ مجھے چیل کی آواز آئی یہ دراصل اطلاع ہوتی ہے کہ حاجی صاحب تشریف لاتے ہیں ‘ میں اٹھا اور حیران ہوا اور پوچھا خیریت تو ہے کہ اچانک اتنی رات تشریف لائے تو فرمانے لگے کہ کملی والے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے مدینہ آپ کو ‘ مجھے اور صحابی بابا کو حکم ہوا ہے ‘ میں اٹھا وضو کیا‘ کپڑے بدلے‘ خوشبو لگائی اور میرے پاس ایک جوتا ہے جو خالص حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے جوتے کی طرز کا بنا ہوا ہے پہنا اور ان حضرات کے ساتھ چل پڑا۔ میرے سرہانے چھوٹا کلاک پڑا ہوتا ہے وہ بھول کر جلدی میں کسی طرح جیب میں دوسرے سامان کے ساتھ آ گیا۔ جب رات کے وقت میں حرمین شریفین کی طرف سلام پڑھنے کیلئے گیا تو 18 منٹ گھر سے نکلے ہو گئے تھے تو وہاں میں نے کچھ دیر مراقبہ کیا ‘ لازوال مناظر دیکھے‘ صلوٰة وسلام پڑھا پھر قبرستان جنت البقیع کے قبرستان گئے‘ تقریباً پونے دو گھنٹے وہاں رہے‘ پھر ہم واپس آئے۔ گھر آ کر دو نفل پڑھ کر میں لیٹ گیا۔ (جاری ہے)

قسط نمبر 3

کیونکہ جب سورج گرہن ہوتا ہے تو اس وقت اس کی آنکھیں کچھ دیر کیلئے بند ہو جاتی ہیں اور یہ اڑ نہیں سکتا پھر یہ چھپ کر بیٹھ جاتا ہے۔ اگر موت لکھی ہو تو پھر شاہین کی اگر نظر پڑ جائے تو اس کا شکار ممکن ہو سکتا ہے۔ اس کی خوراک سونے اور جواہرات کے ذرات ہیں اور یہ اسی پرندے کا سوپ ہے۔ یہ ایک گھونٹ آپ کی سردی کو فوراً ختم کر دے گا اور اگر دوسرا گھونٹ پی لیں گے تو آپ کو کبھی سردی نہیں لگے گی حتیٰ کہ آپ کے علاقے کی سخت سردی میں بھی آپ کو گرمی لگے گی اور سخت سردی میں آپ صحن میں یا چھت پر بستر بچھا کر سوئیں گے اور گرمی میں پھر آپ کا کیا حال ہو گا میں نے صرف ایک گھونٹ پیا واقعی دوسرے گھونٹ کی نوبت ہی نہیں آئی۔ گرم ترین لباس میں مجھے پہلے سردی لگ رہی تھی اب گرمی لگنے لگ گئی۔ پھر جنات کے ایک بڑے بوڑھے باورچی سے صحابی بابا نے میری ملاقات کرائی۔ نہایت بوڑھے بزرگ تھے۔ صدیوں ان کی عمر تھی۔ آنکھوں کی بھنویں ڈھلک کرآگے آ گئی تھیں اور انہوں نے آنکھوں کو بند کر دیا تھا۔ اب وہ خود پکاتے نہیں بلکہ نگرانی کرتے ہیں۔ ان کے بارے میں حاجی صاحب نے بتایا کہ یہ وہ بزرگ ہیں جنہوں نے بڑے بڑے اولیاءکرام کے دستر خوانوں کی خدمت کی ہے۔ ان میں حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ۔ شیخ ابوالحسن خرقانی رحمتہ اللہ علیہ‘ شیخ فاتحہ شیبانی رحمتہ اللہ علیہ‘ حضرت علی ہجویری رحمتہ اللہ علیہ لاہور والے‘ حضرت معین الدین چشتی اجمیری ‘ عبداللہ شاہ غازی کراچی والے‘ اس طرح بے شمار نام پکارے کہ مجھے یاد نہیں۔ ان کے جسم پر بڑے بڑے بال تھے‘ موٹے کپڑے کا پرانا ہلکے پیلے رنگ کا کرتا پہنا ہوا تھا۔میں نے اس بوڑھے باورچی جن سے سوال کیا کہ تمام اولیاءکی مرغوب غذا کیا چیزیں تھیں۔ فرمانے لگے ہر درویش کا اپنا ذوق تھا جیسے حضرت علی ہجویری ہریسہ اور تازہ انگور‘ دیسی گھی میں بنی چوری اور بعض دفعہ سوکھی روٹی کے ٹکڑے بھی مزے لے لے کر کھاتے۔ حضرت بابا فرید شکر گنج کا واقعہ سنایا کہ ایک دفعہ مجھے سورة رحمن کی آیت ” فَبِاَیِّ اٰلَآئِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ“ کا ورد بتایا( واقعةً میں نے بھی کیا۔ جس طرح باورچی جن کو فائدہ ہوا مجھے بھی ہوا اور کئی بار ہوا۔ انہوں نے مجھے یہ عمل بخش دیا) کہ جب کبھی بے موسم کی چیز کھانے کو دل چاہے یا لمبا سفر مختصر کرنے کو دل چاہے‘ یا تم چاہو کہ میں اپنے بستر پر لیٹے لیٹے دنیا کے کسی ملک یا کسی شہر کی سیر کر لوں یا تم چاہو کہ کسی با کمال درویش جو اس دنیا سے رخصت ہو گیا ہو اس کی ملاقات ہو جائے یا اس سے باقاعدہ علم حاصل کروں تو بس یہ اس مخصوص طریقے سے پڑھو اسی وقت نظارے دیکھو ۔ باورچی جن کہنے لگے یہ انہوں نے مجھے سالہا سال خدمت پر دیا تھا۔ انہیں ماش کی دال کالی مرچ اور بکری کے گوشت میں پکی بہت پسند تھی۔ میں نے باورچی جن سے پوچھا اپنی زندگی کا کوئی ناقابل فراموش واقعہ سنائیں۔ کہنے لگے بے شمار واقعات ہیں لیکن ان میں چند واقعات سنا تا ہوں۔
 
کہنے لگے کہ ہمارے جنات کا اصول ہے یعنی نیک صالح اور متقی جنات کا کہ جس گھر میں قیام ہوتا ہے اگر وہ گھر والے نیکی ‘ قرآن‘ نماز ‘ ذکر ‘ صدقات‘ خیرات اور گھر میں نیک صالح لوگوں کو بلانا وغیرہ کی ترتیب پر قائم رہتے ہیں تو ہم ان کی معاونت کرتے ہیں ۔ ہاتھ بٹاتے ہیں۔ ہر کام میں مدد کرتے ہیں ‘ ان کے دشمن کے وار کو خودروکتے ہیں۔ حتیٰ کہ اگر جادو ہو جائے تو اس کو ختم کرتے ہیں۔ گھر والوں کو اطلاع کرتے ہیں۔ بعض اوقات خود ہماری نسل جنات سے ایسے شریر جنات کسی بچے کو دھکا دیتے ہیں ۔جسے عام طور پر گھر والے گرنا اور چوٹ لگنا کہتے ہیں۔ ہم ا ن کی حفاظت کرتے ہیں۔ باورچی جن نے اپنے ہاتھوں سے اپنی لٹکی بھنوﺅں کو پکڑا ہوا تھا۔ انہیں چھوڑ کر ‘پتھر کا سہارا لے کر تسلی سے بیٹھے اور پھربولے کہ چونکہ میر اکثر وقت شہروں اور درویشوں کی خانقاہوں اور آستانوں پر گزرتا ہے موجودہ صدلی کے ایک مشہور درویش (میں ان کا نام دانستہ نہیں لکھ رہا) کے گھریلو مزاج میں تقویٰ اور استغناءتھا ‘کسی قسم کا لالچ نہیں تھا۔ ہم اس درویش کی ہرطرح مدد کرتے حتیٰ کہ ایک بار کچھ شریر لوگ ان کی بہت نیک لیکن نہایت حسین بیٹی کیساتھ شرارت کا پروگرام بنا چکے تھے انہیں اس چیز کی خبر نہیں تھی ‘ ہم نے ان شریر لوگوں کے پروگرام کو ختم کرایا اور ان کے منصوبوں کو انہی پر پلٹ دیا اور صرف اس بزرگ کو خبر کی۔ اس طرح کے بیشمارمعاملات میں ان کی مدد کرتے رہتے تھے۔لیکن ان کے وصال کے بعد ان کی اولاد پیر تو بن گئی لیکن وہ نیکی والی زندگی چھوڑ کر خالص دنیا داری میں پڑ گئے۔ پھر ہم نے خواب کے ذریعے انہیں اس بزرگ کی نسبت سے سمجھانے کی کوشش کی ‘ کئی بار سائل یا درویش کے روپ میں انہیں نصیحت کر آیا لیکن مریدین کی کثرت اور مال کی آمد نے انہیں آخرت سے غافل کر دیا۔ پھر ان کی عورتوں کے سر سے دوپٹے اتر گئے‘ پھر انہیں سزا یہ دی کہ ان کے گھر میں بے چینی‘ بیماری‘ پریشانی‘ ایک مشکل سے نکلیں دوسری میں پڑ جائیں‘ دوسری سے نکلیں تیسری میں پڑ جائیں‘ نفسیاتی الجھنیں‘ حالانکہ وہ نفسیاتی الجھنیں نہیں تھیں وہ سزا تھی۔ (جاری ہے)

Monday 15 April 2013

قسط نمبر 2

حا جی صاحب جو کہ جنات کے 14 بڑے قبائل ( واضح رہے کہ ہر قبیلہ لاکھوں کروڑوں جنات کی تعداد سے بھی زیادہ ہوتا ہے) کے سردار ہیں‘ ان کی عمر سینکڑوں سال ہے۔ بہت زیادہ متقی اور پرہیز گار ہیں۔ خاص طور پر حلال حرام کے بارے میں خصوصی خیال رکھتے ہیں۔ اپنے ہر اس جن کو سزا دیتے ہیں جو کسی کے گھر سے مالک کی اجازت کے بغیر کھا پی کے آجائے یا کسی کے گھر سے زیور یا رقم چوری کر لے حتیٰ کہ ایک دفعہ ایسا ہوا کہ میں حاجی صاحب کے ساتھ ان کے پوتے کے نکاح کے سلسلے میں قراقرم کی سنگلاخ ہزاروں فٹ اونچی پہاڑیوں میں تھا ۔ میں نے بیٹے کا نکاح پڑھانا تھا‘ کروڑوں جنات اکٹھے تھے۔ جن میں مرد ‘ عورتیں‘ بوڑھے ‘ بچے ‘ جوان سب تھے۔ سنت کے مطابق نکاح تھا۔ نکاح کے وقت لڑکے کی عمر ایک سو پچاسی سال تھی۔ ابھی جوان ہی ہوا تھا کہ انہوںنے اس کی شادی کی فکر شروع کر دی تھی۔ نکاح کیلئے اکٹھے ہوئے تو لوگوں نے حاجی صاحب اور ان کے بیٹے عبدالسلام جن کو بے شمار ہدیے دیئے۔ صحابی بابا بھی ہمارے دائیں تشریف فرما تھے۔ ایک خوبصورت زیور کا سیٹ ایک پکی عمر کے جن نے لا کر دیا۔ چونکہ حاجی صاحب ہر ہدیے پر نظر رکھے ہوئے تھے اس سونے کے بھاری سیٹ کو دیکھ کر چونک پڑے۔ ان صاحب کو بلایا اور پوچھا یہ کہاں سے لیا؟ وہ خاموش ہو گئے پھر پوچھا کہ کہاں سے لیا؟ اب ظاہر ہے وہ اپنے آقا اور سردار کے سامنے جھوٹ نہیں بول سکتا تھا۔ کہنے لگا کہ میسور انڈیا کے فلاں شہر کے فلاں ہندو سیٹھ کی تجوری سے چرا کر لایا ہوں۔ چونکہ آپ کے بیٹے کی شادی تھی اور آخری بیٹا تھا اور میں خالی ہاتھ آنا نہیں چاہتا تھا۔ اس لئے یہ غلطی کر بیٹھا۔ حاجی صاحب نے ایک نظر میری طرف دیکھا کہ جیسے پوچھ رہے ہوں کہ کیا حکم ہے؟۔ پھر صحابی بابا کی طرف دیکھا ‘ صحابی بابا خاموش رہے۔ یہ ان کی اکثر عادت ہے جب میں موجود ہوں تو وہ خاموش رہتے ہیں ‘ اس لئے نہیں کہ میں ان سے بڑا ہوں اس لئے کہ وہ مجھ پر نہایت شفقت فرماتے ہیں۔ جو عرض کر دوں اس کو حکم بنوا کر منواتے ہیں اور جو نہ مانے اس کو سخت ترین سزا دیتے ہیں۔ میں نے حاجی صاحب سے عرض کیا کہ ساری زندگی آپ کی حلال پر گزری ہے۔ آپ نے کبھی حرام نہ خود کھایا نہ کبھی کسی کو کھانے دیا۔ حتیٰ کہ مجھے عبدالسلام کا واقعہ یاد ہے جو کہ اس کی والدہ نے سنایا کہ جب یہ ایک سو پندرہ سال کا تھا چونکہ ابھی چھوٹا تھا کہ کسی کے گھر سے تلے ہوئے دو پراٹھے لایا تھا اور کچھ لقمے کھا لئے اور باقی کھا رہا تھا تو حاجی صاحب نے دیکھ لیا‘ پراٹھے ہاتھ سے چھین لئے اور لوہے کی موٹی زنجیروں سے مار مار کر لہو لہان کر دیا۔ پھر پانی میں نمک ملوا کر بہت زیادہ پلوایا اور حلق میں انگلی مروا کر قے کروا دی تھی۔
 
جب یہ واقعہ میں نے بیان کیا تو حاجی صاحب نے گردن ہلائی کہ واقعی ایسا ہوا تھا اور عبدالسلام کا سر جھک گیا۔ میں نے مزید تفصیل بیان کی کہ ہندو ہو یا مسلمان جس کا بھی حق ہے اس تک واپس جانا چاہیے۔ یہ پکی عمر کے مسلمان جن ہیںانہیں سزا نہ دیں بلکہ معاف کر دیں۔ دو محافظ جن جو میرے سینکڑوں محافظوں میں سے ہیں ان کو ساتھ کر دیتے ہیں کہ جہاں سے چرائے تھے واپس وہیں رکھ کر آئیں۔ یہ محافظ ان کی نگرانی کریں کہ آیا واپس وہیں رکھے ہیں یا نہیں۔ ابھی میں نے بات ختم کی تھی تو میرے نظر حاجی صاحب کے چہرے پر پڑی کہ ان کے نورانی چہرے پر زبردست جلال تھا۔میرا سالہا سال کا تجربہ ہے کہ جب ان کے چہرے پر جلال ہوتا ہے تو بہت پسینہ آتا ہے۔ اب تو اتنا پسینہ آیا کہ ڈاڑھی سے بہہ کر نیچے گر رہا تھا۔ غصے سے کانپتی آواز میں بولے کہ یہ ابھی چھوٹا ہی تھا کہ میں نے اس کی تربیت کی آج اس کی عمر سولہ سو سال سے زیادہ ہو گئی ہے لیکن اس نے یہ حرکت کیوں کی ہے؟۔ آپ چونکہ میرے مرشد کے خلیفہ ہیں اور وصال کے وقت مرشد ہم سب قبائل کو آپ کے سپرد کر گئے تھے لہٰذا اجازت دیں کہ اس کو سزا ملنی چاہیے اور اس کی قید کا حکم ملنا چاہیے۔ میں نے جب یہ صورت دیکھی کہ اب حاجی صاحب سخت جلال میں ہیں۔ میں اگر قید کا حکم نہ مانوں حاجی صاحب مان تو جائیں گے لیکن ایک کی قید سب کروڑوں جنات کے لئے نصیحت بن جائے گی تو میں نے عرض کیا کہ حاجی صاحب جیسے آپ کا مشورہ ہو، میں آپ کے ساتھ ہوں۔ بندہ نے اسی وقت اپنے محافظ جنات کو حکم دیا ‘ انہوں نے اس شخص کو اسی وقت زنجیروں میں جکڑ کر ٹھٹھہ (حید ر آباد سندھ) میں مکلی قبرستان کی بڑی جیل میں پہنچا دیا۔
 
اس واقعے کے بعد عبدالسلام جن کے نکاح کی تقریب میں اچھی خاصی افسردگی ہوئی لیکن صحابی با با نے احادیث اور تفسیر سنا کر محفل کو پھر گرما دیا کہ اگر ہم نے انصاف کے تقاضے چھوڑ دیئے تو انصاف کہاں سے لائیں گے۔ میں نے نکاح کا خطبہ پڑھا‘ ایجاب و قبول ہوا اور ہر طرف مبارکباد کی آوازیں لگنے لگیں۔ پھولوں کے ہار دولہا کے گلے میں لٹکائے ‘ ستر سو من چھوہارے جن کا انتظام پہلے سے تھا وہ سب لوگوں میں تقسیم کئے گئے۔رات زیادہ ہو گئی تھی اور وہاں سردی بہت سخت تھی۔ ان لوگوں کو سردی تو نہیں لگ رہی تھی لیکن باوجود اچھے کپڑے اور گرم لباس کے مجھے بہت سردی لگ رہی تھی۔ تھوڑی دیر میں میرے لئے ایک سوپ لایا گیا ‘ حاجی صاحب کہنے لگے حضرت یہ میری اہلیہ نے آپ کیلئے خصوصی تیار کیا ہے ۔ یہاں قراقرم کی چوٹیوں میں ایک چڑیا کی مانند پرندہ ہے جو کہ حلال ہے اور اتنا تیز رفتار ہوتا ہے کہ شاہین اس کا شکار اپنی ساری زندگی میں صرف ایک دن وہ بھی قدرتی طور پرکر سکتا ہے۔ (جاری ہے)

قسط نمبر 1

سخت سردی کے دنوں میں رمضان المبارک کی 13 تاریخ‘ سحری کے وقت میری پیدائش ہوئی۔یہ ہمارے آبائی قدیمی گھر کا وہ کمرہ تھا جس کے بارے میں واضح یقین تھا کہ یہاں نیک صالح جنات کا وجود ہے جو کہ ہر وقت ذکر اعمال اوروظائف کرتے رہتے ہیں۔ شعور سے قبل بس اتنا یاد ہے کہ کچھ باپردہ خواتین اورصالح شکل بزرگ مجھے بہلاتے‘ مجھ سے کھیلتے ‘مجھے میٹھی اور لذیز چیزیں کھلاتے ۔بعض اوقات والدہ مرحومہ خود حیران ہو جاتیں کہ یہ دودھ نہیں پیتا کیونکہ پیٹ پہلے سے بھرا ہوا ہوتاتھا۔
 
بقول والدہ مرحومہ کے کئی بار ایساہوا کہ وہ مجھے جھولے میں سلا کر گئیں واپس آئیں تو جھولا خالی تھا۔ بہت پریشان ہوئیں‘ کئی گھنٹوں پریشان اور رو رو کر بدحال ہو گئیں پھر دیکھا کہ میں جھولے میں سو رہا تھا اور خوشبو سے رچا بسا۔ پہلے والا لباس نہیں تھا بہت خوبصورت بیل بوٹے والا لباس زیب تن تھا منہ میںکوئی میٹھی چیز لگی ہوئی تھی جیسے کوئی میٹھی چیز کھلائی گئی ہو۔
یہ معمہ کتنے دن حل نہ ہوا۔ طرح طرح کے انوکھے واقعات ہوتے رہے۔ کبھی میں نے بستر پرپیشاب اور اجابت نہ کی۔ جب حاجت ہوتی تو خوب روتا یا پھر دوست جنات میری حاجت صاف کر دیتے تھے۔ اماں حیران ہوتی کہ بچے کو کس نے غسل دیا کس نے نہایت چمک دار سرمہ لگایا، کس نے خوشبو لگائی، آخر یہ خدمت کس نے کی۔ بعض اوقات میں سورہا ہوتااوروالدہ مرحومہ کام کررہی ہوتی تھیں۔ بھوکا ہونے کی وجہ سے جب میں روتا اورکام میں مصروف والدہ جب تھوڑی دیر بعد پہنچتیں تو میرے ہونٹوں پر دودھ لگا ہوتااور میں پھرسے پُرسکون نیند سورہا ہوتا تھا۔ یہ تمام واقعات مختلف اوقات میں شعور میں آنے کے بعد والدہ مجھے سناتی تھیں۔ اگر کوئی بچہ مجھے مارتا تو وہ ضرور بیمار ہوتا یا پھر کوئی غیبی سزا یاکم ازکم تھپڑ ضرور مارا جاتا جس کاواضح نشان اس کے جسم پر ہوتا۔ اگر مجھے کوئی جھڑکتا حتیٰ کہ محبت میں بھی تو اس کا کوئی نقصان ہوتا ۔ پھرخواب میں اسے کہا جاتا کہ تم نے ہمارے دوست کومارا تھا اس لیے تمہارا یہ نقصان ہوا یا سزا ملی۔ والدہ بتاتی ہیں کہ ایک بار ایک قریبی رشتہ دار مجھے اپنے گھر محبت سے اٹھا کر لے گئے۔ پہلے تو میں خوشی خوشی چلا گیا پھر رونا شروع کر دیا ۔ظاہر ہے بچے کو ماں نظر نہ آئے تو وہ ضرور روتا ہے ۔جب زیادہ رویا تو تھوڑی دیر میں بچہ غائب تھا اور ان لوگوں کو نظر نہ آیا۔ اب وہ پریشان کہ ہم بچے کی ماں کو کیا جواب دیں گے؟ ڈھونڈتے ڈھونڈتے پریشان ہو گئے لیکن بچہ نہ ملا۔ پریشان حال میرے گھر پہنچے تو میں خوش و خرم کھیل رہا تھا وہ حیران کہ تین گلی دور یہ چند سالوں کا بچہ کیسے چل کر آگیا۔چونکہ والدہ کو کئی بار خواب میں اور ظاہر طور پر وہ صالح جن جنہیں میں حاجی صاحب کہتا تھا ‘بچے سے محبت اور خدمت کا بتا چکے تھے والدہ فوراً سمجھ گئیں اور بات گول کر گئیں۔ مزید بچپن کے واقعات تحریر کے دوران بتاتا رہوں گا جو کہ میں نے والدہ مرحومہ سے سنے اور بعد میں خود مجھے نظر آئے اور اب تک آرہے ہیں۔
 
میں ابھی آٹھویں جماعت میں پڑھتا تھا کہ ایک رات حاجی صاحب نے آکر مجھے پیار سے جگایا اور فرمایا چلو میرے ساتھ ۔پھر حاجی صاحب کی نورانی شکل یکایک بدل گئی اور وہ ایک ایسے خوبصورت پرندے کی شکل میں تبدیل ہو گئے جس کے پر اتنے لمبے شاید کسی بڑے جہاز کے پروں سے بھی بڑے۔ میں ان کی گردن پرپروں سے پکڑ کر بیٹھ گیا۔ فرمایا ڈرنا نہیں تمہیں ہزاروں خوفناک مناظر نظر آئیںگے۔ اب حاجی صاحب نے ا ڑنا شروع کر دیااتنا اونچے اڑے کہ اوپر اندھیرا ہی اندھیرا تھا بہت دیر تک نہایت تیزرفتاری سے اڑتے رہے ۔پھر ایک جگہ بہت سے لوگوں کا اجتماع تھا ‘ مجھے وہاں چھوڑا۔ حاجی صاحب کی وہاں بہت عزت ہوئی۔ ایسے محسوس ہوا جیسے وہ وہاں کے سردار یا بڑے ہیں۔ مجھے بہت عزت اور محبت دی گئی۔ ایک جگہ کچھ لوگ ایک مخصوص قرآنی آیت کا ورد کررہے تھے۔حاجی صاحب مجھے وہاںبٹھا کر چلے گئے ان لوگوںکا حلیہ کیسا تھا ‘میں بعد میں تحریر کروں گا جسے سن اور پڑھ کر آپ حیران اور پریشان ہو جائیں گے۔ میں بہت دیر تک اس آیت کو اس سارے مجمع کے ساتھ پڑھتا رہا ۔پھر لذیذ کھانے کھلائے ۔آخر میں ایک بہت بڑے بزرگ کی زیارت کیلئے لے جایا گیا جنہیں صحابی بابا کہہ رہے تھے بعدمیں پتہ چلا کہ وہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی رضی اللہ عنہ ہیں اور اب تک بھی ان کی شفقت محبت اور فیضان مجھ پر ہے۔ انہوں نے سرپرہاتھ پھیرا اور دعا دی۔ پھرفرمایا یہ قرآنی آیت کی تاثیر تمہیں ہدیہ کرتا ہوں ۔جب بھی مجھے بلانا ہے سانس روک کر اسے پڑھناشروع کر دو اورتصور ہی میں اس کا ثواب مجھے بخشو ۔میں اسی وقت حاضر ہوں گا۔ پھر وہاں اور کئی حیرت انگیز واقعات ہوئے جو آئندہ اقساط میں بتاﺅںگا۔ انشاءاللہ ۔اس آیت کا پہلا تجربہ اس ملاقات کے چند دنوں بعد میں نے یوں کیا کہ آٹھویں جماعت کا رزلٹ آیا بورڈ کے دفتر سے گزٹ چند لوگ لائے اور رقم لے کر رزلٹ دیتے۔ رقم بھی میرے لیے کوئی مسئلہ نہیںتھا کہ میں ایک مالدار باپ کا بیٹا تھا لیکن اتنا بڑا ہجوم کہ میں صبح 9بجے کا گیا ہوا تھا اور 3بجے تک مجھے موقع نہ ملا۔ بھوک، پیاس اور انتظار نے مجھے نڈھال کر دیا۔ اچانک صحابی بابا کی آیت یاد آئی۔ میں نے اس ہجوم میں کھڑے ہو کر وہی آیت سانس روک کرپڑھی اور اس کا ثواب صحابی بابا کو ہدیہ کر دیا۔ بس کیا ہوا کہ میں نے دیکھا کہ سامنے صحابی بابا کھڑے ہیں ان کے ہاتھ میں موٹی سی ایک کتاب ‘وہی گزٹ ہے اور میرا رول نمبر نکال کرمجھے دکھایا ۔تسلی دی ‘ماتھے پر بوسہ دیا اور 5روپے کا نوٹ جس کی اس وقت بہت اہمیت سمجھی جاتی تھی دے کرکہا کوئی چیز کھا لینا اور غائب ہوگئے۔یہ پہلا واقعہ تھا صحابی بابا سے ملاقات کا۔ پھر اس وقت سے لے کر آج اس وقت تک نامعلوم کتنی بار صحابی بابا سے محبت، راز ونیاز اور ان کی شفقت سے فائدہ اٹھایا۔
 
جس دن میری والدہ فوت ہوئیں اس دن جنازے میں صحابی بابا تھے اور ان کے ساتھ 14لاکھ سے زیادہ جنات تھے۔ جنہیں میں نے ایک بے پناہ ہجوم کی شکل میں جنازے میں دیکھا۔ ان کی تعداد مجھے صحابی بابا نے بتائی۔ مزید بتایا کہ ہر جن نیک و صالح ہے جن کی اکثریت مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ سے آئی ہے اور ہر ایک نے 70 ہزارکلمہ پڑھ کر آپ کی والدہ اور والد کو بخشا ہے۔انہوں نے جنازے کو کندھا دیا اور قبرستان تک پہنچایا۔ تین دن جنات کی اکثریت حاجی صاحب اور صحابی بابا سمیت گھر میں رہے۔ جب بھی والدین کی قبر پر جاتا ہوں تو یہ حضرات ساتھ ہوتے ہیں۔ ایک بار میں ایک قبرستان میں تھا یہ اسی سال سردیوں کی بات ہے۔ میں گھر سے کمبل لانا بھول گیا۔ قبرستان میں کھلی جگہ احساس ہوا کہ مجھے سخت سردی لگ رہی ہے ۔اتنی دور سے کمبل کیسے لے آﺅں؟آخرسوچ سوچ کر کیونکہ سخت مجبور ی میں صحابی بابا کو تکلیف دیتاہوں ‘وہ آیت پڑھی توحسب معمول صحابی بابا کمبل لیکر تشریف لائے اور میں نے اوڑھ لیا۔ (جاری ہے)