Wednesday 12 June 2013

(قسط نمبر 16)

بہت دیر مراقبے کے بعد اللہ کے دئیے ہوئے علم میں سے روحانی علم نے مجھے بتایا کہ وہ سرکش جن مکلی کی جیل سے نکل کرسیدھا سمندرکی طرف گیا اور سمندر کی اندھیری اور گہری تہوں میں بیٹھا ہوا ہے اب اس کو تلاش کیسے کیا جائے اس کیلئے میں نے حضرت سلیمان علیہ السلام کا وہ ورد جو انہوں نے ایک دفعہ مجھے حالت مراقبے میں بتایا تھا اور ویسے بھی اگر کوئی چیز گم ہوگئی ہو اس کو تلاش کرنے میں تیربہدف ہے میں نے وہ اسم جو قرآن کریم میں بھی ہے یعنی فِی سَمِّ الخِیَاط پڑھا لیکن لاہوتی دنیا میں جاکر پڑھا ویسے عام شخص وہ اسی عالم میں پڑھے تو بھی نفع ہوگا سب کو اجازت ہے۔ بس اسی کو بکثرت کھلا پڑھنا ہے۔

خیر میں نے وہ اسم لاہوتی دنیا میں بکثرت پڑھا اور خوب پڑھا کہ میرا جسم پسینہ پسینہ ہوگیا کیونکہ مجھے وہ جن مطلوب تھا اس کا جرم یہ تھا کہ وہ لوگوں کے گھروں سے چوریاں کرتا‘ رقم‘ زیور سونا چاندی ہیرے جواہرات اٹھاتا تھا وہ عورتوں کے ساتھ زنا کرتا تھا حالانکہ اس کا والد میرا بہت عرصے کا جاننے والا ہے جوکہ نہایت شریف آدمی ہے۔ کپڑے کاکام کرتا ہے۔ ویسے آخری عمر میں میں نے اس کے دادا کو بھی دیکھا جو کہ ساڑھے 11سوسال کی عمر میں فوت ہوئے تھے پہلے بھی کئی بار اس نے چوری کی لیکن طرفین کے درگزر سے ہمیشہ اس کو چھوڑ دیا اور معاف کردیا گیا اب اس نے پھر ایک بہت بڑا گناہ اور چوری کی پھر ہمارے نگران طاقت ور جنات کے ہاتھوں پکڑا گیا اس کو بہت سخت جیل میں ڈالا۔ سب حیران ہیں کہ آخر یہ چھوٹ کیسے گیا؟ بہرحال جب میں نے فِی سَمِّ الخِیَاط کو لاہوتی عالم میں وجدان سے پڑھا اور خوب پڑھا تو یکایک اس آیت کے شمی موکلات سامنے آئے نہایت خطرناک اور بہت ڈراونے چہرے تھے ہر موکل کا قد ڈیڑھ سو فٹ سے کم نہ تھا جسم 50 فٹ کے پھیلاو سے زیادہ تھا۔ ایک ہاتھ کی انگلی ایک میٹر سے زیادہ تھی جسم سے سخت قسم کی خاص بو نکل رہی تھی ان کے جسم سے آگ کے شعلے نکل رہے تھے ان کی آگ اتنی سخت تھی کہ قریب کی ہرچیز جل رہی تھی چونکہ میں ہر وقت حصار سلیمانی میں رہتا ہوں اس لیے مجھ پر اس کا کوئی اثر نہ ہوا۔

وہ سب یک زبان بولے کہ ہمارے لائق کیا خدمت ہے ہم حاضر ہیں آپ نے ہمیں لاہوت سے طلب کیا ہم آپ کے غلام ہیں ہمیں آپ کی خدمت کیلئے بھیجا گیا ہے میں نے انہیں کہا کہ کڑکیل موتھن نام کا جن جیل سے نکل گیا ہے ہمارے لاہوتی پراسراری علم کے مطابق وہ سمندر کی تاریک تہہ میں چھپا ہواہے اسے وہاں سے کوئی پکڑ نہیں سکتا اس لیے ہمیں آپ کو تکلیف دینی پڑی۔ لہٰذا اسے آپ گرفتار کرکے اور سلیمانی زنجیر میں باندھ کر لے آئیں۔ ہمارے بول پورے ہوتے ہی وہ یکایک غائب ہوگئے اب میں نے صحابی جن سے عرض کیا کہ آپ بتائیں وہ اس طرح غائب کیوں ہوگیا اور نکل کیسے گیا اس جیل کی تاریخ میں آج تک ایسا واقعہ ہرگز نہیں ہوا‘ آخر یہ واقعہ کیسے ہوگیا۔

صحابی بابا جن فرمانے لگے میرے علم کے مطابق اسے کسی نے کوئی ورد بتایا ہے وہ اس ورد کی وجہ سے اس جیل سے نکل پایا ہے ورنہ آج تک یہاں سے کسی کے نکلنے کی جرأت نہیں ہوئی میں نے صحابی بابا سے عرض کیا کہ آپ اپنے علم کی طاقت سے معلوم کریں کہ اس نے کونسا ورد کیا ہے جبکہ وہ غیرمسلم ہے کوئی قرآنی اور روحانی ورد کیسے کرسکتا ہے؟ صحابی بابا مراقبے میں چلے گئے میں نے سب دوسرے جنات کے چہرے دیکھے بہت پریشان‘ غمزدہ‘ ندامت سے اٹے ہوئے تھے میں نے نگران جنات سے سختی کی کہ آخر آپ کے نگران جیل کے محافظ اور لاکھوں کا عملہ کہاں گیا تھا کیا سب سورہے تھے؟ آخر ایسا کیوں ہوا؟ سب خاموش جیسے کسی کے جسم میں جان تک نہیں۔ کوئی جواب نہیں دے رہا تھا آخر کیا ہوا‘ کیسے ہوا‘ بس ہوگیا اور جو ہوا برا ہوا۔ تھوڑی دیر کے بعد صحابی بابا نے سر اٹھایا اور فرمایا کہ اس نے جیل سے رہائی کیلئے قرآن کی آیت کا سہارا لیا ہے کہ جیل میں موجود ایک مسلمان جن محافظ نے اسے بتایا ہے۔ وہ آیت (وَلَقَدفَتَنَّا سُلَیمٰنَ وَاَلقَینَا عَلٰی کُرسِیِّہ جَسَدًا ثُمَّ اَنَاب) یہ آیت اس نے دن رات پڑھی ہے حتیٰ کہ اسے پڑھنا نہیں آتا تھا اس مسلمان محافظ نے کئی دن لگا کر اسے یاد کرائی ہے۔ اس کے بدلے میں اس نے اسے بہت سا مال دیا ہے اور وہ مال اس محافظ نے فلاح بوڑھے برگد کے درخت کے تنے کے اندر چھپا دیا ہے۔ اور اب بھی وہ یہی آیت سمندر کی تہہ میں بیٹھا پڑھ رہا ہے کیونکہ اسے محسوس ہوگیا ہے کہ اسے کوئی طاقت ورطاقتیں پکڑنے کیلئے آرہی ہیں لیکن بچائو کیلئے وہ یہی پڑھ رہا ہے۔

یہ بات سنتے ہی میں حیران ہوگیا کیونکہ اس آیت کے کرشمات کا پہلے بھی بے شمار دفعہ تجربہ ہوچکا تھا اور لاتعداد بے گناہ قیدی انسان رہا ہوگئے تھے کہ خود پڑھایا اس کی طرف سے ایک یا کئی آدمیوں نے پڑھا اور خوب کھلا پڑھا اور بہت کثرت سے پڑھا تو قیدی کی غیب سے رہائی ہوگئی۔ لیکن کسی غیرمسلم نے یہ آیت پڑھی ہو اور اس کی قید سے رہائی ہوگئی ہو پہلا انوکھاتجربہ ہے۔

بہرحال کچھ ہی دیر کے بعد وہ لاہوتی فِی سَمِّ الخِیَاط کے موکلات اس سرکش قیدی کو پکڑ لائے‘ کہنے لگے ہمیں اس کے پکڑنے میں دیر لگی ہے وہ اس لیے کہ یہ کوئی وظیفہ پڑھتا تھا اور ہماری نظروں سے اوجھل ہوجاتا تھا‘ ہم پریشان ہوئے ہم پھر اس کے قریب ہوئے اور پھر وظیفہ پڑھے یہ پھر ہماری نظروں سے اوجھل ہوجائے۔ آخر ہم نے لاہوتی دنیا میں اپنے آقا سے رجوع کیا تو انہوں نے اس کا حل بتایا کہ آپ طاقت سے اسم ذات اللہ پڑھیں۔ واقعی جب ہم نے اسم ذات پڑھنا شروع کیا تو اس کی زبان بند ہوگئی اور ہم اسے گرفتار کرکے لے آئے۔

وہ سرکش جن نہایت ذلت میں ڈوبا ہوا سخت پریشان اور اسی پریشانی میں اس کے جسم سے سمندر کی تہہ کی کیچڑ جو کہ اس کے جسم میں لگی ہوئی تھی اور اس سے سخت بدبو آرہی تھی۔ (جاری ہے)

(قسط نمبر15)

مجھے اس وقت ہلکی سی خوف کی لہر محسوس ہوئی لیکن میں خوفزدہ نہ ہوا اور پھر پہلے سے بھی زیادہ طاقت اور یقین کی قوت سے پڑھنے بیٹھ گیا۔

دری پھر لپٹی‘ پھر کسی طاقت نے مجھے پہلے سے بھی زیادہ سخت انداز میں لپیٹ کر کمرے کے کونے میںکھڑا کردیا‘ ایسے محسوس ہوتا تھا کہ جیسے کسی نے مجھے رسے کے ساتھ لپیٹ کر باندھ دیا ہو۔

بہت گھنٹوں کی کوشش کے بعد صف سے نکلنے میں خلاصی پائی۔ چونکہ عشق پاگل ہوتا ہے لہٰذا پھر پڑھنے بیٹھ گیا۔ پھر تیسری بار ایسے ہوا۔ اسی کشمکش میں سردیوں کی لمبی رات گزر گئی۔ فجر کی آذانیں ہونے لگیں فوراً مسجد کی صف کو سیدھا کیا موذن آیا اسے احساس تک نہ ہونے دیا۔ دوسری رات پھر مسجد میں پہنچ گیا۔ اب صورتحال یہ ہوئی جب میں پڑھنے کیلئے بیٹھا تو سخت آندھی چلی مسجد کے دروازے کھڑکیاں بند تھیں دھماکے سے سب کھل گئے اور مسجد کی چٹائیاں اور دریاں سب میرے اوپر ڈھیر ہوگئیں اور میں ان کے نیچے دب گیا اتنا دبا کہ میرا سانس گھٹنے لگا۔ بہت کوشش اور محنت کے بعد چونکہ جوانی کی طاقت بھی تھی ان دریوں کو ہٹایا کھڑیاں دروازے بند کیے اور پھر پڑھنے بیٹھ گیا تھوڑی دیر کے بعد یکایک سخت آندھیوں کا بگولہ آیا پھر وہی ہوا جو پہلے ہوا تھا اس دفعہ تو مسجد کا منبر بھی اور قرآن پاک پڑھنے کیلئے رکھی چوکیاں بھی سب کچھ میرے اوپر ڈھیر ہوگیا اب میرے ساتھ یہ ہوا کہ میں نکلنا چاہتا تھا لیکن نکل نہیں پا رہا تھا۔
محسوس ہوا کوئی طاقت مجھے جکڑے ہوئے ہے جو میری مزاحمت کا توڑ کررہی ہے حتیٰ کہ میری طاقت جواب دے گئی تھک ہار کر مایوس ہوکر بیٹھ گیا اب کیا کرسکتا ہوں اچانک خیال آیا آیت الکرسی پڑھوں بہت دیر تک آیت الکرسی پڑھتا رہا پھر وہ سامان ہٹایا تو آہستہ آہستہ ہٹتا گیا یوں ساری رات پھر گزر گئی مسجد کی دریاں چٹائیاں جائے نماز منبر ہر چیز کو سلیقہ دیا۔ مسجد کی صفائی کی نمازیوں کے آنے سے پہلے اسے ترتیب دیا۔ تیسری رات پھر اسی عمل میں بیٹھ گیا۔ اب ایسا ہوا کہ کالے سیاہ مکوڑے میرے اردگرد جمع ہونا شروع ہوگئے وہ میرے سر سے پاوں تک چل پھر رہے تھے کاٹتے تو نہ تھے لیکن میں کوئی مکوڑا سر سے ہٹاتا تو بازو پر چڑھ جاتا بازو سے ہٹاتا تو کان پر ایک جگہ چھوڑتا تودوسرے وہاں پہنچ جاتے سینکڑوں ہزاروں کے قریب یہ مخلوق مسلسل میرا پیچھا کررہی تھی۔کوئی پل میں چین سے نہیں بیٹھ سکتا تھا۔

ان مکوڑوں سے نجات ملتی تو یہ پڑھائی کرتا۔ کوئی سات آٹھ جگہیں تبدیل کیں چند لمحوں کیلئے پڑھنے بیٹھتا مکوڑے وہیں پہنچ جاتے یہ تیسری رات بھی یونہی اسی کشمکش اور پریشانی میں گزر گئی۔ دوسری مساجدسے فجر کی اذانوں کی آوازیں آنا شروع ہوئیں تو فوراً سب مکوڑے یکایک غائب ہوگئے ایک پیوند لگے دراز قد سرسفید‘ ڈاڑھی سفید‘ لباس سفید‘ سر پر سفید پگڑی پہنے بزرگ نمودار ہوئے کہنے لگے بیٹا تو نے تین راتوں سے ہمیں پریشان کیا ہے۔ بیٹا ہمیں قابو نہ کر یہی وقت اپنے نفس کو قابو کرنے میں لگا‘ اللہ کی اطاعت کر‘ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اختیار کر۔ اللہ کو راضی کرلے ہم تیرے بے دام غلام بن جائیں گے ورنہ اگر ہم کسی عمل کے ذریعے تابع ہوں گے تو یاد رکھ قیدی قیدی ہوتا ہے۔ وہ ہر وقت آزاد ہونے کے سو جتن کرتا ہے تو جب بھی موقع ملتا ہے وہ اپنے آقا کا نقصان کرکے ہی آزاد ہوتا ہے اور پھر اس کی نسلوں سے انتقام لیتا ہے۔ بیٹا میری عمر 1950 سال ہے میں زندگی بھر یہی سبق سب کو دیتاآیا ہوں اورتمہیں بھی دے رہا ہوں اور وہ بابا جی غائب ہوگئے۔ میرے نانا مرحوم فرمانے لگے اس دن کے بعد میں نے کسی بھی عمل سے گریز کیا۔

قارئین! میں علامہ لاہوتی پراسراری آپ سے یہی درخواست کروں گا کہ آپ بھی ان خیالات کو چھوڑ دیں کیونکہ میرے پاس بے شمار پیغامات محترم حکیم صاحب کے ذریعے جنات کو قابو کرنے کے ملتے ہیں۔ میری بات اور ہے میں تو پیدائشی طور پر جنات کا منظور نظر تھا اوراب بھی ان کی محبتیں میرے اوپر بیکراں ہے بلکہ میری اوقات سے بڑھ کر۔

کچھ دن پہلے بارش کی رات میرے ساتھ ایک انوکھا واقعہ پیش آیا ہوا یہ کہ میں اپنے معمولات پورے کرکے سورہا تھا اور میرے معمولات میں درودشریف 1100 بار‘ استغفار 1100 بار‘ تیسرا کلمہ 1100 بار ہے۔ اللہ تعالیٰ نے میرے لیے اس تعداد کو آسان بنادیا ہے اور بہت سہولت سے یہ تعداد پوری ہوجاتی ہے۔ میں یہ عمل کررہا تھا جب میں تیسرے کلمے کی تعداد پر پہنچا تو میں نے محسوس کیا کہ آج کچھ مہمان میرے پاس ضرور آئیں گے بس ایسے ہی دل میں خیال پیدا ہوا جب میں وظائف اور مراقبہ سے فارغ ہوا تو اچانک حاجی صاحب‘ صحابی بابا‘ حاجی صاحب کے پانچ بیٹے‘ باورچی جن اور چند درویش جن مکلی ٹھٹھہ کے بھی ساتھ تھے یہ وہ جنات تھے جو واقعی طاقتور جنات ہیں کیونکہ میری نگرانی مکلی میں جنات کی بڑی جیل پر ہے اور وہ میرے ماتحت کام کرتے ہیں۔ میں نے شکوہ کیا کہ کئی راتوں کا تھکا ہوا ہوں مجھے سونا تھا۔ آپ اچانک کیسے آگئے۔

کہنے لگے بس ایک مشکل آپ کی طرف لائی ہے دراصل ایک سرکش جن جیل سے بھاگ گیا ہے کہیں خبر نہیں کہ آخر وہ کہاں ہے کس جگہ ہے‘ سراغ لگانے کی بہت کوشش کی ہے لیکن جن قابو میں نہیں آیا۔ کئی دن سے دن رات ایک کردیا ہے یہ ساری بات حاجی صاحب نے فرمائی۔ پھر فرمانے لگے یہ جیل کے نگران ندامت اور پریشانی کے عالم میں میرے پاس آئے کہہ رہے ہیں کہ ہم علامہ صاحب کو کیا منہ دکھائیں کیونکہ انہوں نے تو یہ سب کچھ ہمارے ذمے لگایا تھا انہوں نے اپنے طور پر کوشش میں کمی تو نہیں کی۔

لیکن پھر بھی ہماری کمی ہے کہ وہ جن ہم سے بھاگ گیا ہے میں نے جب یہ بات سنی ساری تکان نیند کاخمار اور آرام کی طلب کا جذبہ یکایک ختم ہوگیا۔
بہت پریشانی ہوئی اب اس کا کیا کیا جائے میں مراقب ہوا اور حضرت سلیمان ؑ کا مراقبہ کیا جو وہ اکثر کرتے تھے اور جس کی وجہ سے جنات ان کے احاطہ نظر سے باہر نہیں ہوسکتے تھے۔ (جاری ہے)

Thursday 6 June 2013

قسط نمبر 14

پھر انہوں نے حزب البحر سے استفادہ کرنے اور اس کے کمالات کہ جن کا میں 100 فیصد عامل بن چکا تھا‘ اس کے عملیات و وظائف مجھے بتائے۔ اگر کسی شخص کی پھانسی کا فیصلہ ہوگیا ہو اور وہ فیصلہ ناحق ہو تو وہ شخص خود حزب البحر یا اس کی طرف سے کوئی دوسرا شخص ہر نماز کے بعد 41 دفعہ پڑھ لے چند ہی دنوں میں وہ رہائی پالے گا۔
 
اسی طرح اگر کسی کی شادی میں رکاوٹ ہو اور رکاوٹ کامسئلہ ناممکن حدتک پہنچ چکا ہو۔ وہ ہرنماز کے بعدانتہائی یقین اور توجہ کیساتھ41 یا 91 دن تک حزب البحرپڑھیں۔شادی کا ناممکن مسئلہ چند دنوں میں ممکن ہوجائےگا۔
ایک شخص میرے پاس آیااتنا رویا کہ اس کی ہچکی بند گئی۔وہ شخص پہلے بہت مالدار تھا۔ دن بدلے‘ سب کچھ لٹ گیا‘ ہر چیز برباد ہوگئی۔ کچھ باقی نہ بچا۔ میں نے انہیں تسلی دیتے ہوئے یہی عمل ہر نماز کے بعد پڑھنے کیلئے بتایا‘چند دنوں میں ان کا مسئلہ حل ہوگیا۔
 
ایک شخص کا نسل در نسل بہت بڑا دفینہ تھا۔انہیں علامات محسوس ہورہی تھیں کہ ان کا خزانہ ہے انہیں اپنی علامات کی مزید تائید ایک بہت بڑے صاحب کشف سے بھی ہوئی۔صاحب کشف بزرگ نے انہیں صدیوں سے دفن اس خزانہ کی مقدار بتائی چونکہ ہر خزانے پر جنات سانپ کی شکل میں قابض ہوتے ہیں اور کہاوت مشہور ہے وہ ایسے ہے جیسے خزانے پر سانپ بیٹھا ہوا ہے۔
 
وہ صاحب میرے پاس آئے۔ میں نے انہیں یہی عمل دیا اور ساتھ کچھ جنات کی ڈیوٹی لگائی کہ وہ ان جنات سے ان کا حق دلا دے ورنہ خزانہ بھی اکثر بربادی اور پریشانی کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ انہوں نے یہ عمل 123 دن کیا اور انہیں خزانہ مل گیا۔ آپ زندگی کی کسی مشکل میں مبتلا ہیں ایسی مشکل جس کے بارے میں آپ نے یا لوگوں نے سوچ لیا کہ اس کا حل صرف موت ہی ہے۔ مایوس نہ ہوں حزب البحر اسی ترتیب سے پڑھنا شروع کردیں آپ خود محسوس کریں گے کہ مشکلات آپ سے ایسے دور ہوں گی جیسے آٹے میں سے بال، میری طرف سے سب کو حزب البحر کی عام اجازت ہے۔ مجھے تو اس کے تجربات میں یہاں تک کمالات دیکھنے کو ملے ہیں حج کو ترسنے والے سینکڑوں ایسے خواتین وحضرات جن کیلئے حج تو کیا حج کاخواب بھی ایک خواب تھا کو بار بار حج نصیب ہوا اور اولاد چاہنے والے لاتعداد مایوس ازدواجی جوڑوں کو اولاد نرینہ کی دولت نصیب ہوئی، مفلس، تنگ دست، نادار امیر بن گئے۔ حالات کے پسے ہوئے خوشحال ہوگئے۔ ذلت میں ڈوبے ہوئے مکرم و معظم بن گئے۔ امتحان میں کامیابی والے اعلیٰ اعلیٰ پوزیشنیں لے گئے۔ مقدمات میں ہارنے والے جیتنے والے بن گئے۔ بیماریوں میں مبتلا مایوس مریض صحت مند اور صحت یاب ہوگئے ۔بے حیثیت باحیثیت ہوگئے۔ صاحب ذلت صاحب عزت بن گئے۔ بے مراد بامراد بن گئے۔ میاں یا بیوی روٹھی ہوئی ہو‘ جلے ہوئے گھر‘ خوشگوار ازدواجی زندگی سے مزین وآراستہ ہوگئے۔ نافرمان اولاد فرمانبردار بن گئی۔ عادات بد میں مبتلاافراد نیک بن گئے۔ نیکی لینے والا، تسبیح چاہنے والا کبھی اس نے حزب البحر اس ترتیب سے پڑھی ہو اور نفع نہ ہوا ہو‘ الغرض ! مجھے اپنے روحانی سفرمیںکوئی ایک شخص بھی ایسا نہیں ملا کہ جس نے مکمل توجہ اور دھیان اور 100 فیصد یقین سے یہ عمل کیا ہو اور اس کواس کے حیران کر دینے والے مشاہدات اور لاجواب فائدے حاصل نہ ہوئے ہوں ۔ قارئین! آپ بھی کرسکتے ہیں اور پاسکتے ہیں۔
 
قارئین!میں نے ایڈیٹر عبقری سے وعدہ لیا ہوا ہے کہ میری کسی سے ملاقات نہ کروائی جائے اور نہ ہی کسی کو میرا ایڈریس دیا جائے۔ بہت سے لوگوں کو غلط فہمی ہوئی ہے کہ شاید میں امیر لوگوں سے ملاقات کرتا ہوں اور غریبوں کو نظرانداز کردیتا ہوں۔ ایسا ہرگز نہیں‘ ہر شخص میرے لیے قابل احترام اور ہر دکھی میرے سر کا تاج ہے۔ کوشش کرتا ہوں اپنے زندگی کے تجربات میں سے ایسی چیزیں عبقری کے قارئین کو بتاوں جو امیر‘ غریب‘ بادشاہ اور فقیر سب کیلئے یکساں مفید ہوں اور ایڈیٹر عبقری کے ذریعے لاکھوں لوگوں کے شکرئیے مجھ تک پہنچے ہیں کہ جس جس نے بھی محنت کرکے عمل کیا اسے منزل ملی ہے۔ پریشانی دور ہوئی‘ مسائل اور مشکلات حل ہوئے ہیں۔
 
پچھلے دنوں میں جمعہ کی نماز پڑھنے مسجد گیا‘ ایک صاحب نے مجھے پہچان لیا‘ بہت اصرار کیا‘ آخر وہ صاحب مجھے اپنے گھر لے آئے‘ کہنے لگے!مجھے جنات قابو کرنے کا بہت شوق ہے اس کیلئے میں بے شمار عمل کرچکا ہوں‘ میرا کوئی عمل بھی کامیاب نہیں ہوا‘ میں نے انہیں اپنے نانا کا ایک واقعہ سنایا کہ جن کے ذریعے میں نے روحانیت‘ عملیات‘ لاہوت‘ ملکوت‘ جبروت‘ ناسوت اور پراسرار علم اور پراسرار قوتوں تک رسائی پانے میں بہت مدد اور رہبری ملی۔ ہاں! مجھے اس بات کا اعتراف ہے کہ صحابی بابا‘ حاجی صاحب اور دیگر جنات جو بچپن سے میری ہر قدم پر رہبری اور رہنمائی کررہے ہیں اور اب میں جو کچھ بھی ہوں محض اللہ جل شانہ کے فضل اور اولیاءجنات کے طفیل ہوں وہاں میں اپنے نانا مرحوم کی بے لوث خدمات کو نظرانداز نہیں کرسکتا۔ میرے نانا فرمانے لگے۔ 1929ءکی سرد رات تھی۔ مجھے ایک عامل نے جنات تابع کرنے کا ایک مضبوط عمل دیا۔ اسے مسجد میں بیٹھ کر نماز عشاءکے بعد جب سب نمازی چلے جائیں اور مسجد خالی ہوجائے‘ کوئی دیکھنے والا نہ ہو اور نہ ہی کوئی جاننے والا اس وقت کرنا تھا۔ میں نے سفید کپڑے پہن کر خوشبو لگا کر وہ عمل پڑھنا شروع کردیا۔ عمل اتنا جلالی تھا کہ کچھ دیر پہلے مجھے سخت سردی محسوس ہونا شروع ہورہی تھی لیکن چند لمحوں کے بعد میں پسینے میں شرابور ہوگیا اور مجھے گرمی لگنا شروع ہوگئی میں عمل پڑھتا رہا۔ تھوڑی دیر میں مسجد کی صف لپٹنا شروع ہوئی اور کسی غیبی طاقت نے مجھے بھی مسجد کی صف میں لپیٹ کر مسجد کے کونے میں کھڑا کردیا۔ لپیٹا اتنا سخت تھا کہ میں نکلنا چاہتا بھی تو نہیں نکل سکتا تھا۔ آخر بہت دیر کی سخت کوشش کے بعد میں صف سے نکلا۔ میں صف بچھا کر پھر پڑھنے بیٹھ گیا کیونکہ اس وقت مجھ پر عمل کا جنون سوار تھا ۔ (جاری ہے)