Thursday 23 May 2013

(قسط نمبر11 )

دوسرا سارے گھر والے یا گھر کے چند افراد یا خود مجبور افراد دن رات یَاحَکِیمُ یَاعَزِیزُ یَالَطِیفُ یَاوَدُودُ بکثرت یعنی روزانہ وضو‘ بے وضو ‘پاک‘ ناپاک ‘ہزاروں کی تعداد میں پڑھیں۔ ہزاروں کی تعداد سے کم نہ ہو۔یہ عمل 90 دن کریں۔تیسرا صدقہ جتنا زیادہ تعداد میں اور قیمتی ہوگا اتنا زیادہ نفع ہوگا۔ ورنہ جتنا ہوسکے، گائے، بکری، بکرا اور نقدی رقم میں ایسے غریب جو نمازی اور ذکر کرنے والے ہوں روزانہ 90 دن تک تلاش کرکے دیا جائے۔
 
بس یہ عمل میں نے انہیں کرائے کیونکہ جو شخص یہ تینوں عمل کرتا ہے ہاں اگر تینوں میں سے ایک عمل بھی کم ہوا یا کمزور ہوا تو سورئہ فلق اور سورئہ ناس کے موکلات ہرگز مدد نہیں کریں گے اور جناتی سفلی چیزیںکالا جادو اور جنات ہرگز نہیں ٹوٹیں گے کیونکہ ذکر اور صدقہ دراصل ان موکلات کی خوراک اور مدد ہے جب تک آپ سورئہ فلق اورناس کے موکلات کو انکی خوراک نہیں دیں گے اس وقت تک وہ ان کالے ازلی اور گندے جنات سے نہیں لڑینگے اور انہیں ختم نہیں کرسکیں گے۔
 
خلیفہ کی لونڈی نے یہ سارے عمل خود کیے اور صدقات کی خلیفہ نے حد کردی پھر خود خلیفہ نے بھی یہ ذکر کثرت سے کیا۔ اسکی وجہ سے محبت بڑھنے لگی اور دل کی جدائیوں میں مرہم بھرنے لگا۔ شکستہ دل اوردور ہوئے جسم دوبارہ قریب آنے لگے۔ 90 دن کے بعد بھی انہوں نے یہ ذکر نہ چھوڑادن بدن ذکر میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ انہوں نے کپڑا جلاکر راکھ پانی میں بہا دی۔
 
ادھر وہ جنات جنہوں نے اس کالے جن کی مدد کی ان کا بہت نقصان ہوا ان کے گھر جل گئے۔ انکے بچے مرگئے۔ بہت حادثات رونما ہوئے۔ سورتوں کے طاقت ور ترین موکلات نے انکا اتنا حشر کیا کہ انہیں عبرت کا نشان بنادیا۔صحابی بابا کہنے لگے اس دور میں مجھے درویش کے ذریعے خلیفہ مامون الرشید نے اشرفیوں کا بھرا ہوا ایک مشکیزہ دیا تھا۔کہنے لگے کچھ اشرفیاں اب بھی میرے پاس ہیں۔ یہ اشرفیاں تحریر کرنے والے علامہ لاہوتی نے بھی دیکھی ہیں۔
 
صحابی بابا نے اس سارے عمل کے فوائد اور مزید کمالات اتنے بتائے کہ میں خود حیران ہوا۔ چند فوائد لکھتا ہوں۔ اگر کسی کی اولاد نافرمان ہو وہ یہ عمل مستقل کرے‘ گھریلو جھگڑے‘ میاں بیوی کے درمیان یا اولاد کے مسائل یا آج کل عام طور پر رشتوں کی تلاش یا روزی کی بندش، قرضے اوراس جیسے مسائل کی وجہ سے اگرآپ پریشان ہوں تو پورے خلوص اعتماد توجہ اور دھیان سے یہ عمل کریں آپ کو منزل ملے گی‘ کمال ملے گا۔ میں نے صحابی بابا سے عرض کی کہ اگر آپ مہربانی کریں تو مجھے اس عمل کی اجازت دے دیںتا کہ یہ عمل میں جس کو بتاﺅںاسکو سو فیصد نفع ہو۔ صحابی بابا نے خوشی سے اس عمل کی اجازت دے دی اور میری طرف سے اس عمل کی ہرایک کو اجازت ہے۔
 
ابھی پرسوں کی بات ہے‘ میں رات کے آخری پہر قبرستان پہنچا کیا خوب سناٹا‘ ہر طرف تنہائی‘ ہُو کا عجیب عالم تھا۔ جنات اپنے بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے۔ جنات کے بچے مجھے چھیڑنے کیلئے دوڑے کیونکہ بچے تو بچے ہی ہوتے ہیں چاہے وہ انسان کے ہوں جانور کے یا جن کے‘ ان کے مزاج میں شرارت ہوتی ہی ہے۔ ایک بچہ دوسرے سے کہنے لگا آو اسکی ٹانگ کھینچتے ہیں اور اس کو گرا تے ہیں‘ دوسرا کہنے لگا نہیں اسکے سر میں مکا مارتے ہیں ہر بچے کو کوئی نہ کوئی شرارت سوجھ رہی تھی۔ وہ ہنستے کھیلتے اچھلتے‘ کودتے‘ میری طرف بڑھ رہے تھے۔ دور ہی سے ایک بوڑھی جننی نے بچوں کو ڈانٹا اور کہا خیال کرو۔ یہ حزب البحر کا عامل ہے۔ اس سے بچ کر رہنا۔ بچے ایسے بھاگے جیسے کوا پتھر سے بھاگتا ہے۔
 
حزب البحر کی بات چلی‘ تو میں نے حزب البحر کا چلہ کیا چونکہ حاجی صاحب اور صحابی بابا کی سرپرستی توجہ اور شفقت میرے ساتھ تھی۔ انہوں نے نوچندی جمعرات سے اس عمل کوشروع کرنے کا فرمایا میں نے نوچندی جمعرات کو دو کفن کی چادریں‘ ایک سفید ٹوپی بہت سی خوشبو‘ بڑا سا لوہے کا برتن جس میں مکمل 18 کلو سرسوں کا تیل آجائے اور اسمیں گلاب‘ چنبیلی اور رات کی رانی کی تیز خوشبو ڈالی اور ساتھ ایک بڑی سی بتی ڈالی جسکی لمبائی پانچ میٹر تھی۔ پانچ فٹ گہرا پانچ فٹ چوڑا مٹی کا ایک گڑھا کھود کر اس تیل کے برتن اور بتی کا چراغ جلایا اور حالت کفن میں بیٹھ کر روزانہ حزب البحر 5555 بار پڑھنا شروع کردیا۔ تین بہت بڑے اور موٹے سانپ میرے اردگرد ہر وقت رہتے وہ بظاہر تو سانپ تھے لیکن دراصل وہ جنات تھے جو کہ حفاظت کیلئے مقرر تھے چونکہ یہ عمل جلالی ہے پڑھتے ہوئے ساتھ بارش کا پانی مجھے چسکی چسکی اسلئے پینا تھا کہ منہ میں لعاب خشک ہوکر عمل کی حدت اور حرارت کی وجہ سے آگ پیدا ہوجاتی تھی اس آگ کو یا تو زمزم کا پانی یا پھر بارش کا پانی ختم کرسکتا ہے۔ ہاں اتنی اجازت ضرور تھی کہ اس گھڑے کی دیوار سے ٹیک لگاسکتے ہیں۔ حزب البحر میرے خیال میں اسکا عمل صرف جنات ہی کراسکتے ہیں اگر کوئی مخلصین جنات میسر ہوں کیونکہ جن کسی عمل وغیرہ سے قابو میں نہیں آتا بلکہ جن موقع کی تلاش میں ہوتا ہے موقع ملتے ہی وہ نقصان پہنچا دیتا ہے ہاں اگر بڑوں کی برکت سے جنات سے دوستی ہوجائے یا میری طرح جسے بچپن سے جن محبوب رکھتے ہوں بلکہ مجھ پر تو جن عاشق ہیں تو ایسے شخص کیلئے عمل کرنا کبھی مشکل نہیں ہوتا کیونکہ دوران عمل چڑیلوں‘ دیو‘ جنات‘ پریوں اور لاہوتی‘ ناسوتی‘ ملکوتی‘ جبروتی‘ مخلوقات کے طرح طرح کے شدید حملے شروع ہوجاتے ہیں اسلئے جو لوگ حزب البحر کے عامل ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں وہ پڑھ ضرور لیتے ہیں لیکن عامل ہونا بہت دور کی بات ہے مجھے اپنی مطلوبہ تعداد اس گڑھے میں حالت کفن میں پوری کرنا تھی۔ میں نے اپنی زندگی میں حزب البحر کے بیشمار عمل کرنے والوں کو یا زندگی سے یا شعور سے یا پھر رزق یا اولاد سے ہاتھ دھوتے دیکھا۔عمل کے ٹھیک ساتویں دن ایک ایسا ہولناک منظر میرے سامنے آیا اگر میرے اردگرد جنات سانپ کا پہرہ اور میری پشت پر بڑے طاقتور جنات کا ہاتھ نہ ہوتا .................جاری ہے

(قسط نمبر12 )

واقعہ کچھ یوں ہوا پڑھتے پڑھتے مجھے محسوس ہوا ایک جنگل ہے۔ دو میاں بیوی ہیں‘ ان کے بہت سارے بچے ہیں‘ بچے کھیل رہے تھے‘ تھوڑی ہی دیر میں میاں بیوی میں جھگڑا شروع ہوگیا۔ بیوی نے میاں کو کوسنا شروع کردیا تو کماتا نہیں‘ ہڈحرام ہے‘ سارا دن گھر پڑا رہتا ہے‘ بچے بھوکے مررہے ہیں‘ پہننے کو کپڑے نہیں‘ لباس نہیں‘ گھر کی چھت نہیں‘ نیچے کا فرش نہیں‘ اس طرح کی سخت تلخ باتیں بیوی مسلسل کہے جارہی تھی۔ میاں پہلے تو تھوڑی دیر سنتا رہا پھر اسے بھی غصہ آگیا پھر اس نے بھی بولنا شروع کیا اور غلیظ اور گندی زبان استعمال کرنا شروع کردی اور پھر تھوڑی دیر میں میاں نے قریبی درخت سے شاخ توڑی اور اس سے بیوی کو مارنا شروع کردیا‘ اتنا مارا کہ اس کو لہولہان کردیا پھر بچوں کو بھی مارنا شروع کردیا بیوی بے ہوش ہوکر گر گئی۔ میاں بچوں کو بھی مار رہا تھا بچے لہولہان ہوکر مسلسل گرتے جارہے تھے وہ مسلسل گالیاں دے رہا تھا۔ پھر اس نے جنگل سے خشک لکڑیاں اکٹھی کرنا شروع کردیں۔ لکڑیاں اکٹھی کیں نامعلوم کیا بلا تھی لکڑیوںکو آگ لگائی اور پھر اس نے اپنے بچوں کو ایک ایک کر کے آگ میں ڈالنا شروع کردیا۔ ایک کہرام‘ چیخ و پکار جلنے کی سخت بدبو‘ ہیبت ناک منظر‘ جو گمان اور الفاظ سے بالاتر۔ انسانی عقل‘ شعور احساس و ادراک اس کو بیان نہیںکرسکتا۔ جب سارے بچے ختم ہوگئے تو پھر اس نے بیوی کوبھی اٹھا کر آگ میں پھینک دیا۔
 
اب وہ ظالم میاں اپنے بیوی بچوں کو خوشی سے جلتا ہوا دیکھ رہا تھا حتیٰ کہ اس نے ان کی راکھ بنانے کیلئے جنگل کی سوکھی پتلی شاخیں اس آگ کے الاو کیلئے ڈالنا شروع کر دیں‘ اب اس نے الاو کے گرد چکر لگاتے ہوئے جھومنا شروع کردیا اور وہ کسی نامعلوم آواز میں باتیں بھی کررہا تھا اور قہقہے بھی لگارہا تھا یہ منظر بہت طویل دیر تک جاری رہا میں منظر بھی دیکھ رہا تھا اور مسلسل حزب البحر پڑھ رہا تھا۔ مجھے میرے مخلص جنات دوستوں نے پہلے ہی بتا دیا تھا کہ آپ کو ڈرانے بھگانے اور پریشان کرنے کیلئے بہت زیادہ محنت کی جائے گی اور حیرت انگیز مناظر دکھائے جائیں گے بس اپنے آپ کواعصاب اور خیال کے اعتبار سے مضبوط رکھنا۔ اگر تھوڑا سا بھی جھٹکا لگا اور ڈر گئے تو بہت بڑا نقصان ہوسکتا ہے۔ اب میں یہ سب منظر دیکھ بھی رہا تھا اور مجھے جنات دوستوں کی ہدایات یاد آرہی تھیں اور پھر اس وحشی کے قہقہے آگ کے الاو کے اردگرد اسکا جھومنا‘ آگ کے اندر مسلسل بیوی بچوں کے جلنے‘ گلنے سڑنے اور کھوپڑیوں کے ترخنے کی آوازیں‘ یکایک وہ وحشی رک گیا اور متلاشی نظروں سے ادھر ادھر دیکھنے لگا اور اونچی آواز میں کہنے لگا سب جل گئے ابھی ایک شخص باقی ہے وہ کہاں ہے‘ وہ علامہ پراسراری نام لیکر مجھے تلاش کرنے لگا کبھی جنگل کے اس کونے‘ کبھی دوسرے کونے‘ پھر آگ کی طرف آتا اور لکڑیاں اکٹھی کرتا۔ میرا نام لیتا‘ آگ بھڑک رہی تھی‘ شعلے تیز ہورہے تھے‘ آگ کی گرمی کی شدت اور حدت میں گڑھے میں محسوس کررہا تھا۔
 
کفن کی چادریں‘ میرا جسم پسینہ پسینہ ہوگیا مٹی بھیگ گئی‘ پسینے کے قطرے ایسے ٹپک رہے تھے جیسے بارش کا پانی‘ بہت دیر وہ مجھے تلاش کرتا رہا۔ آخر کار مجھ پر اس کی نظر پڑی اس نے وحشیانہ انداز سے قہقہہ لگایا اور مجھے دور سے پکڑنے کیلئے دوڑا اب وہ جس تیزی سے میرے قریب آرہا تھا اس کی آنکھوں سے وحشت اس کے قہقہوں سے وحشت‘ اس کی چال‘ ڈھال‘ انداز سب قاتلانہ‘ مجھے احساس تک نہیں تھا کہ اتنا بڑا خوف آسکتا ہے۔ لیکن ایک پل میں حاجی صاحب کی آواز میرے کانوں میں گونجی گھبرانا نہیں‘ ڈرنا نہیں‘ یہ عمل سے ہٹانا چاہتا ہے تم تک ہرگز نہیں پہنچ سکے گا اگر تھوڑا سا بھی چوک گئے تو یہ کامیاب ہوجائے گا اور تم زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھو گے۔ یقین جانیے یہ لفظ میرے کانوں میں پڑتے ہی میں اپنے مکمل ہوش و حواس اور جوش کی مکمل طاقت کے ساتھ حزب البحر پڑھنے میں مشغول ہوگیا جب وہ میرے قریب آیا اور اس نے مجھے پکڑنا چاہا ‘ میں مطمئن بیٹھا رہا اس کے ہاتھ میری طرف بڑھے مجھے شعوری طور پر اس کے ہاتھوں کا لمس محسوس ہوا چونکہ نہ میں چونکا اور نہ ڈرا بلکہ سوفیصدمطمئن سامنے پڑے چراغ کی لو پر نظریں جمائے اپنا عمل جاری کیے ہوئے تھا کیونکہ سارا منظر میں اس چراغ کی لو میں دیکھ رہا تھا وہ وحشی پیچھے ہٹ گیا اور شکست اور ناکامی سے نیچے گرپڑا کہنے لگا ہمارا پہلا وار تجھ سے خطا گیا ٹھیک ہے تجھ سے نمٹ لیں گے۔
 
میں روزانہ حزب البحر کے مطلوبہ عمل کو کررہا تھا ایسے انوکھے‘ انجانے‘ خوفزدہ کرنے والے طرح طرح کے مناظر دیکھ رہا تھا چالیس دن میں نے اس گڑھے میں گزارے ہر روز نیا تماشا‘ نئی کہانی‘ نئی داستان ہوتی تھی اگر میں آپ کو روز کی کہانیاں بتانا شروع کردوں میرے صرف ایک چلہ پر پوری کتاب بن سکتی ہے اور باتیں بھی ایسی انوکھی ہوں گی عام قارئین تو دور کی بات بڑے بڑے وہ عامل جو شاید کبھی کوئی عمل کرکے کسی مقصد تک پہنچے ہوں یا انہیں کبھی کوئی منظر اس طرح نظر آرہا ہو کبھی بھی میری بات کو ہرگز تسلیم نہیں کریں گے۔ ویسے بھی جب سے میں نے اپنی زندگی کے انوکھے لاہوتی پراسرار واقعات لکھنا شروع کیے ہیں بے شمار لوگ ایسے ہیں کہ انہیں یقین ہی نہیں آتا کہ ایسا ممکن بھی ہوسکتا ہے لیکن یہ میرا اور میرے رب کا معاملہ ہے جو میں آپ کے سامنے بیان کررہا ہوں یہ سوفیصد حقیقت بلکہ حقیقتوں میں سے بھی بڑی حقیقتیں ہیں۔ مجھے ایک بات کی خوشی ضرور ہے کہ میرے زندگی کے آزمودہ بتائے ہوئے وظائف اور تجربات سے عبقری کے لاکھوں قارئین کو بہت نفع ہورہا ہے۔
میں نے 40 دن حزب البحر کا عمل کیا اس دوران بہت سے واقعات رونما ہوئے چند واقعات آپ کو سنائے دیتا ہوں۔
 
ایک دفعہ یوں ہوا ایک چیونٹی میرے اوپر چڑھنے کی کوشش کرتی میں انگلی سے اسے دور کرتا پھر چڑھتی پھر دور کرتا پھر چڑھتی‘ میں اپنی توجہ وظیفہ کی طرف کرنا چاہتا تھا باوجود توجہ کے بار بار میری توجہ ہٹ رہی تھی۔ جاری ہے

Wednesday 22 May 2013

(قسط نمبر 13)

پھر توجہ اس طرف کرتا پھر ہٹ جاتی‘ کوئی طاقت ایسی تھی جو مجھے عاجز کرنے کی کوشش کررہی تھی لیکن میں عاجز نہیں ہورہا تھا‘تھوڑی ہی دیر میں اس کا جسم بڑھنا شروع ہوگیا لیکن اب وہ مجھ سے دور ہوگئی۔ وہ میری طرف بڑھنا چاہتی تھی لیکن درمیان میں کوئی نورانی دیوار اسے میرے قریب نہیں آنے دے رہی تھی‘اب اس کا جسم اور بڑھتے بڑھتے ایک بڑی چڑیا کے برابر ہو گیا۔ جسم کا بڑھنا اور اس کا میری طرف بڑھنا یہ دونوں کیفیتیں جاری رہیں۔ جسم بڑھتے بڑھتے بلی کے برابر ہوگیا اس کے غرانے کی آوازیں آنے لگیں‘ جسم بڑھتے بڑھتے کتے کے برابر ہوگیا حتیٰ کہ جسم ایک شیر اور ببر شیر کے برابر ایسا خطرناک اور اس کے جسم سے ایسی سخت بدبو کہ ایسے محسوس ہو کہ جیسے مجھے ابھی قے آجائے گی‘ طبیعت میں سخت بے زاری ‘بے چینی بڑھانے کی مسلسل کوشش کی جارہی تھی۔ لمحہ بہ لمحہ بے چینی بڑھ رہی تھی اور چیونٹی سے شیر کی طرف بڑھنے والا مسلسل جسم بڑھ رہا تھا اور میری طرف لپک رہا تھا‘ درمیان میں نورانی دیوار اس کو روک رہی تھی‘ اب میں وظیفہ بھی پڑھ رہا تھا اور دیوار کے بارے میں بھی سوچ رہا تھا‘ یہ کونسی دیوار ہے کہ اتنی خوفناک چیز اس کی وجہ سے میری طرف بڑھنے سے رک رہی ہے‘تو میرے کانوں میں صحابی باباکی مانوس آواز آئی‘ تمہیں یاد ہے۔ اس40 دن کے عمل سے پہلے تم نے مسلسل 40 دن بہت بڑی مقدار میں مال صدقہ کیا تھا‘ یاد رکھو صدقہ جتنا زیادہ ہوگا‘ جتنا زیادہ مستحقین کو تلاش کرکے دیا جائیگا‘ وہی صدقہ اسی طرح کی نورانی دیوار بن کر صدقہ دینے والے کے اردگرد ہر وقت رہتا ہے اور اسی طرح کے ہر حملہ آور سے صدقہ کرنے والے کی حفاظت کرتا ہے
بس یہ لفظ سننے تھے‘ مجھے سمجھ آگیا وہ جو میں نے40 دن مسلسل غریب مستحقین اور ایسے لوگوں کو جو سوال نہیں کرتے تلاش کرکے روزانہ 4300روپے صدقہ کیاتھا آج وہی صدقہ اس خونخوارسے میری حفاظت کا ذریعہ بن رہا ہے۔خیر وہ جسم اور بڑھ گیا حتیٰ کہ گائے تک پہنچ گیا اب اس کی آوازیں اور تیز ہوگئیں اس کے منہ سے جھاگ نکلنا شروع ہوگئی پھر اس کی زمین پر گرنے والی ہرجھاگ کا قطرہ شعلہ بن کر آگ کی طرح بھڑک رہا تھا۔ پھر تھوڑی ہی دیر میں اس کے منہ سے شعلے نکلنا شروع ہوئے‘ اس کی حرارت میں محسوس کررہا تھا لیکن ان شعلوں کا نقصان مجھے نہیں ہورہا تھا کیونکہ اس صدقہ کی نورانی دیوار میری حفاظت کررہی تھی۔ کچھ دیر کے بعد اس کا جسم ہاتھی بلکہ اونٹ سے بھی اونچا ہوگیا‘ میرامحتاط اندازا ہے کہ اس کا جسم تقریبا500فٹ تک پھیلا ہوا اور 30۔40فٹ لمبا ہو گا۔ اس کی آوازیں بہت بھیانک‘ خوفناک اور تیز تھیں۔ مجبوراً مجھے اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونسنا پڑیں۔
آخر اس نے کہنا شروع کردیا مجھ سے بچنا ہے تو حزب البحر پڑھنا چھوڑ دو‘ میں نے پڑھنا نہ چھوڑا‘ میںتوجہ‘ دھیان سے حزب البحر پڑھ رہا تھا‘ ادھر میں توجہ دھیان بڑھاتا‘ ادھر اس کا چنگھاڑنا‘ ڈرانا اورآوازیں اور زیادہ بڑھ جاتیں۔ بہت دیر یہ سلسلہ چلتا رہا‘ یکایک منظر بدل گیا‘ میں نے دیکھا کہ دور سے میری مرحومہ والدہ محترمہ رحمتہ اللہ علیہ بہت خوبصورت لباس میں تشریف لارہی ہیں اور ان کے ہاتھ میں بجلی نما چھڑی ہے‘ وہ جس چیز کو مارتی ہیں وہ چیز خاکستر ہوجاتی ہے‘ ان کی نورانی شکل اوران کے چہرے پر مسکراہٹ دیکھ کر مجھے ان کی محبت میں بیتے وہ لمحے ایسے یاد آئے کہ میں پل میں ان کی محبت میں ایسا کھو گیا کہ بس انتظار ہی کررہا تھا کہ میں اٹھ جاوں اور جاکر ان کے قدموں میں لپٹ جاوں یا وہ میرے قریب آجائیں۔ انہوں نے اس خونخوار بلا کو دور سے ہی چھڑی ماری ‘وہ خونخوار بلا وہیں راکھ ہوگئی‘ میری بے تابی اور بڑھ گئی اور اندر اندر ہی دل میں خیال جاں گزیں ہونے لگا کہ ماں کی ذات کتنی محبت کرنے والی ہے ان حالات میں بھی وہ میری محبت اور مجھے نہیں بھولیں۔
اسی اثناءمیں والدہ محترمہ میرے قریب آئیں‘میرے جی میں تھا کہ اٹھ کر ان کے قدموں سے لپٹ جاوں لیکن دوبارہ پھر وہی آواز میرے کانوں میں گونجی خیال کرنا یہ فریب کا نیا رنگ ہے‘ حرکت نہیں کرنی‘ توجہ نہیں کرنی‘ بس یہی فقرے میرے کانوں میں گونجے اور میں اس فریب کی تہہ تک پہنچ گیا‘ میرے آنسو نکل آئے‘ اے کاش!یہ حقیقت ہوتی‘ کہانی نہ ہوتی‘ میں اپنی والدہ مرحومہ رحمتہ اللہ علیہ کے قدموں سے لپٹ جاتا۔ میں توجہ سے عمل کررہا تھا۔ والدہ مرحومہ کے روپ میں وہ بلا بہت دیر تک مسکراتی مجھے دیکھتی رہی‘ 100 فیصد والدہ مرحومہ کی آواز میںوہ خونخواربلامجھے بلاتی اور پکارتی رہی‘ جب میں نے بالکل توجہ نہ کی تو ایک دم دھماکہ ہوا‘ زمین پھٹی اور وہ چیز اس کے اندر گم ہوگئی‘ دور ایک آواز جسے صدائے بازگشت کہتے ہیں‘ مجھے سنائی دی کہ تم ہمارے وار سے بچ گئے‘ ورنہ آج ہم تمہیں وہ سبق سکھاتے کہ تم یاد رکھتے۔ چراغ میرے سامنے مسلسل جل رہا تھا‘اس کی رسی جل جاتی تو میں اونچی کردیتا‘ تیل جل رہا تھا‘ میں مسلسل عمل پڑھ رہا تھا۔عمل سے روکنے کیلئے انوکھی کہانیاں اور ڈراونے خوفناک مناظرمسلسل سامنے لائے جارہے تھے۔40 ویں دن اچانک میں نے محسوس کیا کہ مجھے چراغ کا شعلہ نظر نہیں آرہا بلکہ صرف بتی‘ تیل اور برتن نظر آرہے ہیں۔ میں سمجھا کہ چراغ بجھ گیا ہے۔ میں بہت پریشان ہوا حصار سے ہٹ نہیں سکتا تھا۔ آخر کیا کرتا کہ اسی اثناءمیں صحابی بابا‘ حاجی صاحب اور ان کا بیٹا عبدالسلام اور دوسرے بڑے بڑے طاقتور جنات اور لاکھوں کروڑوں ان کے غلام‘ خدام پھولوں کے ہار لیے ہوئے میرے پاس تشریف لائے‘ چونکہ موسم سرماتھا‘ دن ڈوبنے کے قریب تھا‘ مجھے صحابی بابا نے گلے سے لگایا‘ مبارکباد دی۔ خوش ہوئے کہ عمل مکمل ہوگیا‘ اس عمل کے 313 موکلات میرے تابع ہوگئے ہر موکل کے تابع 3 کروڑ تین سو 13 لاکھ جنات ہیں۔ فرمایا! اس عمل کی تاثیرزندگی بھر باقی رکھنے کیلئے تمہارے لیے گناہ کبیرہ‘ رزق حرام‘ جھوٹ سے پرہیز‘ نگاہوں کو پاک اور تنہائیوں کو پاک رکھنا ضروری ہے۔ جاری ہے