Wednesday 12 June 2013

(قسط نمبر 16)

بہت دیر مراقبے کے بعد اللہ کے دئیے ہوئے علم میں سے روحانی علم نے مجھے بتایا کہ وہ سرکش جن مکلی کی جیل سے نکل کرسیدھا سمندرکی طرف گیا اور سمندر کی اندھیری اور گہری تہوں میں بیٹھا ہوا ہے اب اس کو تلاش کیسے کیا جائے اس کیلئے میں نے حضرت سلیمان علیہ السلام کا وہ ورد جو انہوں نے ایک دفعہ مجھے حالت مراقبے میں بتایا تھا اور ویسے بھی اگر کوئی چیز گم ہوگئی ہو اس کو تلاش کرنے میں تیربہدف ہے میں نے وہ اسم جو قرآن کریم میں بھی ہے یعنی فِی سَمِّ الخِیَاط پڑھا لیکن لاہوتی دنیا میں جاکر پڑھا ویسے عام شخص وہ اسی عالم میں پڑھے تو بھی نفع ہوگا سب کو اجازت ہے۔ بس اسی کو بکثرت کھلا پڑھنا ہے۔

خیر میں نے وہ اسم لاہوتی دنیا میں بکثرت پڑھا اور خوب پڑھا کہ میرا جسم پسینہ پسینہ ہوگیا کیونکہ مجھے وہ جن مطلوب تھا اس کا جرم یہ تھا کہ وہ لوگوں کے گھروں سے چوریاں کرتا‘ رقم‘ زیور سونا چاندی ہیرے جواہرات اٹھاتا تھا وہ عورتوں کے ساتھ زنا کرتا تھا حالانکہ اس کا والد میرا بہت عرصے کا جاننے والا ہے جوکہ نہایت شریف آدمی ہے۔ کپڑے کاکام کرتا ہے۔ ویسے آخری عمر میں میں نے اس کے دادا کو بھی دیکھا جو کہ ساڑھے 11سوسال کی عمر میں فوت ہوئے تھے پہلے بھی کئی بار اس نے چوری کی لیکن طرفین کے درگزر سے ہمیشہ اس کو چھوڑ دیا اور معاف کردیا گیا اب اس نے پھر ایک بہت بڑا گناہ اور چوری کی پھر ہمارے نگران طاقت ور جنات کے ہاتھوں پکڑا گیا اس کو بہت سخت جیل میں ڈالا۔ سب حیران ہیں کہ آخر یہ چھوٹ کیسے گیا؟ بہرحال جب میں نے فِی سَمِّ الخِیَاط کو لاہوتی عالم میں وجدان سے پڑھا اور خوب پڑھا تو یکایک اس آیت کے شمی موکلات سامنے آئے نہایت خطرناک اور بہت ڈراونے چہرے تھے ہر موکل کا قد ڈیڑھ سو فٹ سے کم نہ تھا جسم 50 فٹ کے پھیلاو سے زیادہ تھا۔ ایک ہاتھ کی انگلی ایک میٹر سے زیادہ تھی جسم سے سخت قسم کی خاص بو نکل رہی تھی ان کے جسم سے آگ کے شعلے نکل رہے تھے ان کی آگ اتنی سخت تھی کہ قریب کی ہرچیز جل رہی تھی چونکہ میں ہر وقت حصار سلیمانی میں رہتا ہوں اس لیے مجھ پر اس کا کوئی اثر نہ ہوا۔

وہ سب یک زبان بولے کہ ہمارے لائق کیا خدمت ہے ہم حاضر ہیں آپ نے ہمیں لاہوت سے طلب کیا ہم آپ کے غلام ہیں ہمیں آپ کی خدمت کیلئے بھیجا گیا ہے میں نے انہیں کہا کہ کڑکیل موتھن نام کا جن جیل سے نکل گیا ہے ہمارے لاہوتی پراسراری علم کے مطابق وہ سمندر کی تاریک تہہ میں چھپا ہواہے اسے وہاں سے کوئی پکڑ نہیں سکتا اس لیے ہمیں آپ کو تکلیف دینی پڑی۔ لہٰذا اسے آپ گرفتار کرکے اور سلیمانی زنجیر میں باندھ کر لے آئیں۔ ہمارے بول پورے ہوتے ہی وہ یکایک غائب ہوگئے اب میں نے صحابی جن سے عرض کیا کہ آپ بتائیں وہ اس طرح غائب کیوں ہوگیا اور نکل کیسے گیا اس جیل کی تاریخ میں آج تک ایسا واقعہ ہرگز نہیں ہوا‘ آخر یہ واقعہ کیسے ہوگیا۔

صحابی بابا جن فرمانے لگے میرے علم کے مطابق اسے کسی نے کوئی ورد بتایا ہے وہ اس ورد کی وجہ سے اس جیل سے نکل پایا ہے ورنہ آج تک یہاں سے کسی کے نکلنے کی جرأت نہیں ہوئی میں نے صحابی بابا سے عرض کیا کہ آپ اپنے علم کی طاقت سے معلوم کریں کہ اس نے کونسا ورد کیا ہے جبکہ وہ غیرمسلم ہے کوئی قرآنی اور روحانی ورد کیسے کرسکتا ہے؟ صحابی بابا مراقبے میں چلے گئے میں نے سب دوسرے جنات کے چہرے دیکھے بہت پریشان‘ غمزدہ‘ ندامت سے اٹے ہوئے تھے میں نے نگران جنات سے سختی کی کہ آخر آپ کے نگران جیل کے محافظ اور لاکھوں کا عملہ کہاں گیا تھا کیا سب سورہے تھے؟ آخر ایسا کیوں ہوا؟ سب خاموش جیسے کسی کے جسم میں جان تک نہیں۔ کوئی جواب نہیں دے رہا تھا آخر کیا ہوا‘ کیسے ہوا‘ بس ہوگیا اور جو ہوا برا ہوا۔ تھوڑی دیر کے بعد صحابی بابا نے سر اٹھایا اور فرمایا کہ اس نے جیل سے رہائی کیلئے قرآن کی آیت کا سہارا لیا ہے کہ جیل میں موجود ایک مسلمان جن محافظ نے اسے بتایا ہے۔ وہ آیت (وَلَقَدفَتَنَّا سُلَیمٰنَ وَاَلقَینَا عَلٰی کُرسِیِّہ جَسَدًا ثُمَّ اَنَاب) یہ آیت اس نے دن رات پڑھی ہے حتیٰ کہ اسے پڑھنا نہیں آتا تھا اس مسلمان محافظ نے کئی دن لگا کر اسے یاد کرائی ہے۔ اس کے بدلے میں اس نے اسے بہت سا مال دیا ہے اور وہ مال اس محافظ نے فلاح بوڑھے برگد کے درخت کے تنے کے اندر چھپا دیا ہے۔ اور اب بھی وہ یہی آیت سمندر کی تہہ میں بیٹھا پڑھ رہا ہے کیونکہ اسے محسوس ہوگیا ہے کہ اسے کوئی طاقت ورطاقتیں پکڑنے کیلئے آرہی ہیں لیکن بچائو کیلئے وہ یہی پڑھ رہا ہے۔

یہ بات سنتے ہی میں حیران ہوگیا کیونکہ اس آیت کے کرشمات کا پہلے بھی بے شمار دفعہ تجربہ ہوچکا تھا اور لاتعداد بے گناہ قیدی انسان رہا ہوگئے تھے کہ خود پڑھایا اس کی طرف سے ایک یا کئی آدمیوں نے پڑھا اور خوب کھلا پڑھا اور بہت کثرت سے پڑھا تو قیدی کی غیب سے رہائی ہوگئی۔ لیکن کسی غیرمسلم نے یہ آیت پڑھی ہو اور اس کی قید سے رہائی ہوگئی ہو پہلا انوکھاتجربہ ہے۔

بہرحال کچھ ہی دیر کے بعد وہ لاہوتی فِی سَمِّ الخِیَاط کے موکلات اس سرکش قیدی کو پکڑ لائے‘ کہنے لگے ہمیں اس کے پکڑنے میں دیر لگی ہے وہ اس لیے کہ یہ کوئی وظیفہ پڑھتا تھا اور ہماری نظروں سے اوجھل ہوجاتا تھا‘ ہم پریشان ہوئے ہم پھر اس کے قریب ہوئے اور پھر وظیفہ پڑھے یہ پھر ہماری نظروں سے اوجھل ہوجائے۔ آخر ہم نے لاہوتی دنیا میں اپنے آقا سے رجوع کیا تو انہوں نے اس کا حل بتایا کہ آپ طاقت سے اسم ذات اللہ پڑھیں۔ واقعی جب ہم نے اسم ذات پڑھنا شروع کیا تو اس کی زبان بند ہوگئی اور ہم اسے گرفتار کرکے لے آئے۔

وہ سرکش جن نہایت ذلت میں ڈوبا ہوا سخت پریشان اور اسی پریشانی میں اس کے جسم سے سمندر کی تہہ کی کیچڑ جو کہ اس کے جسم میں لگی ہوئی تھی اور اس سے سخت بدبو آرہی تھی۔ (جاری ہے)

(قسط نمبر15)

مجھے اس وقت ہلکی سی خوف کی لہر محسوس ہوئی لیکن میں خوفزدہ نہ ہوا اور پھر پہلے سے بھی زیادہ طاقت اور یقین کی قوت سے پڑھنے بیٹھ گیا۔

دری پھر لپٹی‘ پھر کسی طاقت نے مجھے پہلے سے بھی زیادہ سخت انداز میں لپیٹ کر کمرے کے کونے میںکھڑا کردیا‘ ایسے محسوس ہوتا تھا کہ جیسے کسی نے مجھے رسے کے ساتھ لپیٹ کر باندھ دیا ہو۔

بہت گھنٹوں کی کوشش کے بعد صف سے نکلنے میں خلاصی پائی۔ چونکہ عشق پاگل ہوتا ہے لہٰذا پھر پڑھنے بیٹھ گیا۔ پھر تیسری بار ایسے ہوا۔ اسی کشمکش میں سردیوں کی لمبی رات گزر گئی۔ فجر کی آذانیں ہونے لگیں فوراً مسجد کی صف کو سیدھا کیا موذن آیا اسے احساس تک نہ ہونے دیا۔ دوسری رات پھر مسجد میں پہنچ گیا۔ اب صورتحال یہ ہوئی جب میں پڑھنے کیلئے بیٹھا تو سخت آندھی چلی مسجد کے دروازے کھڑکیاں بند تھیں دھماکے سے سب کھل گئے اور مسجد کی چٹائیاں اور دریاں سب میرے اوپر ڈھیر ہوگئیں اور میں ان کے نیچے دب گیا اتنا دبا کہ میرا سانس گھٹنے لگا۔ بہت کوشش اور محنت کے بعد چونکہ جوانی کی طاقت بھی تھی ان دریوں کو ہٹایا کھڑیاں دروازے بند کیے اور پھر پڑھنے بیٹھ گیا تھوڑی دیر کے بعد یکایک سخت آندھیوں کا بگولہ آیا پھر وہی ہوا جو پہلے ہوا تھا اس دفعہ تو مسجد کا منبر بھی اور قرآن پاک پڑھنے کیلئے رکھی چوکیاں بھی سب کچھ میرے اوپر ڈھیر ہوگیا اب میرے ساتھ یہ ہوا کہ میں نکلنا چاہتا تھا لیکن نکل نہیں پا رہا تھا۔
محسوس ہوا کوئی طاقت مجھے جکڑے ہوئے ہے جو میری مزاحمت کا توڑ کررہی ہے حتیٰ کہ میری طاقت جواب دے گئی تھک ہار کر مایوس ہوکر بیٹھ گیا اب کیا کرسکتا ہوں اچانک خیال آیا آیت الکرسی پڑھوں بہت دیر تک آیت الکرسی پڑھتا رہا پھر وہ سامان ہٹایا تو آہستہ آہستہ ہٹتا گیا یوں ساری رات پھر گزر گئی مسجد کی دریاں چٹائیاں جائے نماز منبر ہر چیز کو سلیقہ دیا۔ مسجد کی صفائی کی نمازیوں کے آنے سے پہلے اسے ترتیب دیا۔ تیسری رات پھر اسی عمل میں بیٹھ گیا۔ اب ایسا ہوا کہ کالے سیاہ مکوڑے میرے اردگرد جمع ہونا شروع ہوگئے وہ میرے سر سے پاوں تک چل پھر رہے تھے کاٹتے تو نہ تھے لیکن میں کوئی مکوڑا سر سے ہٹاتا تو بازو پر چڑھ جاتا بازو سے ہٹاتا تو کان پر ایک جگہ چھوڑتا تودوسرے وہاں پہنچ جاتے سینکڑوں ہزاروں کے قریب یہ مخلوق مسلسل میرا پیچھا کررہی تھی۔کوئی پل میں چین سے نہیں بیٹھ سکتا تھا۔

ان مکوڑوں سے نجات ملتی تو یہ پڑھائی کرتا۔ کوئی سات آٹھ جگہیں تبدیل کیں چند لمحوں کیلئے پڑھنے بیٹھتا مکوڑے وہیں پہنچ جاتے یہ تیسری رات بھی یونہی اسی کشمکش اور پریشانی میں گزر گئی۔ دوسری مساجدسے فجر کی اذانوں کی آوازیں آنا شروع ہوئیں تو فوراً سب مکوڑے یکایک غائب ہوگئے ایک پیوند لگے دراز قد سرسفید‘ ڈاڑھی سفید‘ لباس سفید‘ سر پر سفید پگڑی پہنے بزرگ نمودار ہوئے کہنے لگے بیٹا تو نے تین راتوں سے ہمیں پریشان کیا ہے۔ بیٹا ہمیں قابو نہ کر یہی وقت اپنے نفس کو قابو کرنے میں لگا‘ اللہ کی اطاعت کر‘ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اختیار کر۔ اللہ کو راضی کرلے ہم تیرے بے دام غلام بن جائیں گے ورنہ اگر ہم کسی عمل کے ذریعے تابع ہوں گے تو یاد رکھ قیدی قیدی ہوتا ہے۔ وہ ہر وقت آزاد ہونے کے سو جتن کرتا ہے تو جب بھی موقع ملتا ہے وہ اپنے آقا کا نقصان کرکے ہی آزاد ہوتا ہے اور پھر اس کی نسلوں سے انتقام لیتا ہے۔ بیٹا میری عمر 1950 سال ہے میں زندگی بھر یہی سبق سب کو دیتاآیا ہوں اورتمہیں بھی دے رہا ہوں اور وہ بابا جی غائب ہوگئے۔ میرے نانا مرحوم فرمانے لگے اس دن کے بعد میں نے کسی بھی عمل سے گریز کیا۔

قارئین! میں علامہ لاہوتی پراسراری آپ سے یہی درخواست کروں گا کہ آپ بھی ان خیالات کو چھوڑ دیں کیونکہ میرے پاس بے شمار پیغامات محترم حکیم صاحب کے ذریعے جنات کو قابو کرنے کے ملتے ہیں۔ میری بات اور ہے میں تو پیدائشی طور پر جنات کا منظور نظر تھا اوراب بھی ان کی محبتیں میرے اوپر بیکراں ہے بلکہ میری اوقات سے بڑھ کر۔

کچھ دن پہلے بارش کی رات میرے ساتھ ایک انوکھا واقعہ پیش آیا ہوا یہ کہ میں اپنے معمولات پورے کرکے سورہا تھا اور میرے معمولات میں درودشریف 1100 بار‘ استغفار 1100 بار‘ تیسرا کلمہ 1100 بار ہے۔ اللہ تعالیٰ نے میرے لیے اس تعداد کو آسان بنادیا ہے اور بہت سہولت سے یہ تعداد پوری ہوجاتی ہے۔ میں یہ عمل کررہا تھا جب میں تیسرے کلمے کی تعداد پر پہنچا تو میں نے محسوس کیا کہ آج کچھ مہمان میرے پاس ضرور آئیں گے بس ایسے ہی دل میں خیال پیدا ہوا جب میں وظائف اور مراقبہ سے فارغ ہوا تو اچانک حاجی صاحب‘ صحابی بابا‘ حاجی صاحب کے پانچ بیٹے‘ باورچی جن اور چند درویش جن مکلی ٹھٹھہ کے بھی ساتھ تھے یہ وہ جنات تھے جو واقعی طاقتور جنات ہیں کیونکہ میری نگرانی مکلی میں جنات کی بڑی جیل پر ہے اور وہ میرے ماتحت کام کرتے ہیں۔ میں نے شکوہ کیا کہ کئی راتوں کا تھکا ہوا ہوں مجھے سونا تھا۔ آپ اچانک کیسے آگئے۔

کہنے لگے بس ایک مشکل آپ کی طرف لائی ہے دراصل ایک سرکش جن جیل سے بھاگ گیا ہے کہیں خبر نہیں کہ آخر وہ کہاں ہے کس جگہ ہے‘ سراغ لگانے کی بہت کوشش کی ہے لیکن جن قابو میں نہیں آیا۔ کئی دن سے دن رات ایک کردیا ہے یہ ساری بات حاجی صاحب نے فرمائی۔ پھر فرمانے لگے یہ جیل کے نگران ندامت اور پریشانی کے عالم میں میرے پاس آئے کہہ رہے ہیں کہ ہم علامہ صاحب کو کیا منہ دکھائیں کیونکہ انہوں نے تو یہ سب کچھ ہمارے ذمے لگایا تھا انہوں نے اپنے طور پر کوشش میں کمی تو نہیں کی۔

لیکن پھر بھی ہماری کمی ہے کہ وہ جن ہم سے بھاگ گیا ہے میں نے جب یہ بات سنی ساری تکان نیند کاخمار اور آرام کی طلب کا جذبہ یکایک ختم ہوگیا۔
بہت پریشانی ہوئی اب اس کا کیا کیا جائے میں مراقب ہوا اور حضرت سلیمان ؑ کا مراقبہ کیا جو وہ اکثر کرتے تھے اور جس کی وجہ سے جنات ان کے احاطہ نظر سے باہر نہیں ہوسکتے تھے۔ (جاری ہے)

Thursday 6 June 2013

قسط نمبر 14

پھر انہوں نے حزب البحر سے استفادہ کرنے اور اس کے کمالات کہ جن کا میں 100 فیصد عامل بن چکا تھا‘ اس کے عملیات و وظائف مجھے بتائے۔ اگر کسی شخص کی پھانسی کا فیصلہ ہوگیا ہو اور وہ فیصلہ ناحق ہو تو وہ شخص خود حزب البحر یا اس کی طرف سے کوئی دوسرا شخص ہر نماز کے بعد 41 دفعہ پڑھ لے چند ہی دنوں میں وہ رہائی پالے گا۔
 
اسی طرح اگر کسی کی شادی میں رکاوٹ ہو اور رکاوٹ کامسئلہ ناممکن حدتک پہنچ چکا ہو۔ وہ ہرنماز کے بعدانتہائی یقین اور توجہ کیساتھ41 یا 91 دن تک حزب البحرپڑھیں۔شادی کا ناممکن مسئلہ چند دنوں میں ممکن ہوجائےگا۔
ایک شخص میرے پاس آیااتنا رویا کہ اس کی ہچکی بند گئی۔وہ شخص پہلے بہت مالدار تھا۔ دن بدلے‘ سب کچھ لٹ گیا‘ ہر چیز برباد ہوگئی۔ کچھ باقی نہ بچا۔ میں نے انہیں تسلی دیتے ہوئے یہی عمل ہر نماز کے بعد پڑھنے کیلئے بتایا‘چند دنوں میں ان کا مسئلہ حل ہوگیا۔
 
ایک شخص کا نسل در نسل بہت بڑا دفینہ تھا۔انہیں علامات محسوس ہورہی تھیں کہ ان کا خزانہ ہے انہیں اپنی علامات کی مزید تائید ایک بہت بڑے صاحب کشف سے بھی ہوئی۔صاحب کشف بزرگ نے انہیں صدیوں سے دفن اس خزانہ کی مقدار بتائی چونکہ ہر خزانے پر جنات سانپ کی شکل میں قابض ہوتے ہیں اور کہاوت مشہور ہے وہ ایسے ہے جیسے خزانے پر سانپ بیٹھا ہوا ہے۔
 
وہ صاحب میرے پاس آئے۔ میں نے انہیں یہی عمل دیا اور ساتھ کچھ جنات کی ڈیوٹی لگائی کہ وہ ان جنات سے ان کا حق دلا دے ورنہ خزانہ بھی اکثر بربادی اور پریشانی کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ انہوں نے یہ عمل 123 دن کیا اور انہیں خزانہ مل گیا۔ آپ زندگی کی کسی مشکل میں مبتلا ہیں ایسی مشکل جس کے بارے میں آپ نے یا لوگوں نے سوچ لیا کہ اس کا حل صرف موت ہی ہے۔ مایوس نہ ہوں حزب البحر اسی ترتیب سے پڑھنا شروع کردیں آپ خود محسوس کریں گے کہ مشکلات آپ سے ایسے دور ہوں گی جیسے آٹے میں سے بال، میری طرف سے سب کو حزب البحر کی عام اجازت ہے۔ مجھے تو اس کے تجربات میں یہاں تک کمالات دیکھنے کو ملے ہیں حج کو ترسنے والے سینکڑوں ایسے خواتین وحضرات جن کیلئے حج تو کیا حج کاخواب بھی ایک خواب تھا کو بار بار حج نصیب ہوا اور اولاد چاہنے والے لاتعداد مایوس ازدواجی جوڑوں کو اولاد نرینہ کی دولت نصیب ہوئی، مفلس، تنگ دست، نادار امیر بن گئے۔ حالات کے پسے ہوئے خوشحال ہوگئے۔ ذلت میں ڈوبے ہوئے مکرم و معظم بن گئے۔ امتحان میں کامیابی والے اعلیٰ اعلیٰ پوزیشنیں لے گئے۔ مقدمات میں ہارنے والے جیتنے والے بن گئے۔ بیماریوں میں مبتلا مایوس مریض صحت مند اور صحت یاب ہوگئے ۔بے حیثیت باحیثیت ہوگئے۔ صاحب ذلت صاحب عزت بن گئے۔ بے مراد بامراد بن گئے۔ میاں یا بیوی روٹھی ہوئی ہو‘ جلے ہوئے گھر‘ خوشگوار ازدواجی زندگی سے مزین وآراستہ ہوگئے۔ نافرمان اولاد فرمانبردار بن گئی۔ عادات بد میں مبتلاافراد نیک بن گئے۔ نیکی لینے والا، تسبیح چاہنے والا کبھی اس نے حزب البحر اس ترتیب سے پڑھی ہو اور نفع نہ ہوا ہو‘ الغرض ! مجھے اپنے روحانی سفرمیںکوئی ایک شخص بھی ایسا نہیں ملا کہ جس نے مکمل توجہ اور دھیان اور 100 فیصد یقین سے یہ عمل کیا ہو اور اس کواس کے حیران کر دینے والے مشاہدات اور لاجواب فائدے حاصل نہ ہوئے ہوں ۔ قارئین! آپ بھی کرسکتے ہیں اور پاسکتے ہیں۔
 
قارئین!میں نے ایڈیٹر عبقری سے وعدہ لیا ہوا ہے کہ میری کسی سے ملاقات نہ کروائی جائے اور نہ ہی کسی کو میرا ایڈریس دیا جائے۔ بہت سے لوگوں کو غلط فہمی ہوئی ہے کہ شاید میں امیر لوگوں سے ملاقات کرتا ہوں اور غریبوں کو نظرانداز کردیتا ہوں۔ ایسا ہرگز نہیں‘ ہر شخص میرے لیے قابل احترام اور ہر دکھی میرے سر کا تاج ہے۔ کوشش کرتا ہوں اپنے زندگی کے تجربات میں سے ایسی چیزیں عبقری کے قارئین کو بتاوں جو امیر‘ غریب‘ بادشاہ اور فقیر سب کیلئے یکساں مفید ہوں اور ایڈیٹر عبقری کے ذریعے لاکھوں لوگوں کے شکرئیے مجھ تک پہنچے ہیں کہ جس جس نے بھی محنت کرکے عمل کیا اسے منزل ملی ہے۔ پریشانی دور ہوئی‘ مسائل اور مشکلات حل ہوئے ہیں۔
 
پچھلے دنوں میں جمعہ کی نماز پڑھنے مسجد گیا‘ ایک صاحب نے مجھے پہچان لیا‘ بہت اصرار کیا‘ آخر وہ صاحب مجھے اپنے گھر لے آئے‘ کہنے لگے!مجھے جنات قابو کرنے کا بہت شوق ہے اس کیلئے میں بے شمار عمل کرچکا ہوں‘ میرا کوئی عمل بھی کامیاب نہیں ہوا‘ میں نے انہیں اپنے نانا کا ایک واقعہ سنایا کہ جن کے ذریعے میں نے روحانیت‘ عملیات‘ لاہوت‘ ملکوت‘ جبروت‘ ناسوت اور پراسرار علم اور پراسرار قوتوں تک رسائی پانے میں بہت مدد اور رہبری ملی۔ ہاں! مجھے اس بات کا اعتراف ہے کہ صحابی بابا‘ حاجی صاحب اور دیگر جنات جو بچپن سے میری ہر قدم پر رہبری اور رہنمائی کررہے ہیں اور اب میں جو کچھ بھی ہوں محض اللہ جل شانہ کے فضل اور اولیاءجنات کے طفیل ہوں وہاں میں اپنے نانا مرحوم کی بے لوث خدمات کو نظرانداز نہیں کرسکتا۔ میرے نانا فرمانے لگے۔ 1929ءکی سرد رات تھی۔ مجھے ایک عامل نے جنات تابع کرنے کا ایک مضبوط عمل دیا۔ اسے مسجد میں بیٹھ کر نماز عشاءکے بعد جب سب نمازی چلے جائیں اور مسجد خالی ہوجائے‘ کوئی دیکھنے والا نہ ہو اور نہ ہی کوئی جاننے والا اس وقت کرنا تھا۔ میں نے سفید کپڑے پہن کر خوشبو لگا کر وہ عمل پڑھنا شروع کردیا۔ عمل اتنا جلالی تھا کہ کچھ دیر پہلے مجھے سخت سردی محسوس ہونا شروع ہورہی تھی لیکن چند لمحوں کے بعد میں پسینے میں شرابور ہوگیا اور مجھے گرمی لگنا شروع ہوگئی میں عمل پڑھتا رہا۔ تھوڑی دیر میں مسجد کی صف لپٹنا شروع ہوئی اور کسی غیبی طاقت نے مجھے بھی مسجد کی صف میں لپیٹ کر مسجد کے کونے میں کھڑا کردیا۔ لپیٹا اتنا سخت تھا کہ میں نکلنا چاہتا بھی تو نہیں نکل سکتا تھا۔ آخر بہت دیر کی سخت کوشش کے بعد میں صف سے نکلا۔ میں صف بچھا کر پھر پڑھنے بیٹھ گیا کیونکہ اس وقت مجھ پر عمل کا جنون سوار تھا ۔ (جاری ہے)

Thursday 23 May 2013

(قسط نمبر11 )

دوسرا سارے گھر والے یا گھر کے چند افراد یا خود مجبور افراد دن رات یَاحَکِیمُ یَاعَزِیزُ یَالَطِیفُ یَاوَدُودُ بکثرت یعنی روزانہ وضو‘ بے وضو ‘پاک‘ ناپاک ‘ہزاروں کی تعداد میں پڑھیں۔ ہزاروں کی تعداد سے کم نہ ہو۔یہ عمل 90 دن کریں۔تیسرا صدقہ جتنا زیادہ تعداد میں اور قیمتی ہوگا اتنا زیادہ نفع ہوگا۔ ورنہ جتنا ہوسکے، گائے، بکری، بکرا اور نقدی رقم میں ایسے غریب جو نمازی اور ذکر کرنے والے ہوں روزانہ 90 دن تک تلاش کرکے دیا جائے۔
 
بس یہ عمل میں نے انہیں کرائے کیونکہ جو شخص یہ تینوں عمل کرتا ہے ہاں اگر تینوں میں سے ایک عمل بھی کم ہوا یا کمزور ہوا تو سورئہ فلق اور سورئہ ناس کے موکلات ہرگز مدد نہیں کریں گے اور جناتی سفلی چیزیںکالا جادو اور جنات ہرگز نہیں ٹوٹیں گے کیونکہ ذکر اور صدقہ دراصل ان موکلات کی خوراک اور مدد ہے جب تک آپ سورئہ فلق اورناس کے موکلات کو انکی خوراک نہیں دیں گے اس وقت تک وہ ان کالے ازلی اور گندے جنات سے نہیں لڑینگے اور انہیں ختم نہیں کرسکیں گے۔
 
خلیفہ کی لونڈی نے یہ سارے عمل خود کیے اور صدقات کی خلیفہ نے حد کردی پھر خود خلیفہ نے بھی یہ ذکر کثرت سے کیا۔ اسکی وجہ سے محبت بڑھنے لگی اور دل کی جدائیوں میں مرہم بھرنے لگا۔ شکستہ دل اوردور ہوئے جسم دوبارہ قریب آنے لگے۔ 90 دن کے بعد بھی انہوں نے یہ ذکر نہ چھوڑادن بدن ذکر میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ انہوں نے کپڑا جلاکر راکھ پانی میں بہا دی۔
 
ادھر وہ جنات جنہوں نے اس کالے جن کی مدد کی ان کا بہت نقصان ہوا ان کے گھر جل گئے۔ انکے بچے مرگئے۔ بہت حادثات رونما ہوئے۔ سورتوں کے طاقت ور ترین موکلات نے انکا اتنا حشر کیا کہ انہیں عبرت کا نشان بنادیا۔صحابی بابا کہنے لگے اس دور میں مجھے درویش کے ذریعے خلیفہ مامون الرشید نے اشرفیوں کا بھرا ہوا ایک مشکیزہ دیا تھا۔کہنے لگے کچھ اشرفیاں اب بھی میرے پاس ہیں۔ یہ اشرفیاں تحریر کرنے والے علامہ لاہوتی نے بھی دیکھی ہیں۔
 
صحابی بابا نے اس سارے عمل کے فوائد اور مزید کمالات اتنے بتائے کہ میں خود حیران ہوا۔ چند فوائد لکھتا ہوں۔ اگر کسی کی اولاد نافرمان ہو وہ یہ عمل مستقل کرے‘ گھریلو جھگڑے‘ میاں بیوی کے درمیان یا اولاد کے مسائل یا آج کل عام طور پر رشتوں کی تلاش یا روزی کی بندش، قرضے اوراس جیسے مسائل کی وجہ سے اگرآپ پریشان ہوں تو پورے خلوص اعتماد توجہ اور دھیان سے یہ عمل کریں آپ کو منزل ملے گی‘ کمال ملے گا۔ میں نے صحابی بابا سے عرض کی کہ اگر آپ مہربانی کریں تو مجھے اس عمل کی اجازت دے دیںتا کہ یہ عمل میں جس کو بتاﺅںاسکو سو فیصد نفع ہو۔ صحابی بابا نے خوشی سے اس عمل کی اجازت دے دی اور میری طرف سے اس عمل کی ہرایک کو اجازت ہے۔
 
ابھی پرسوں کی بات ہے‘ میں رات کے آخری پہر قبرستان پہنچا کیا خوب سناٹا‘ ہر طرف تنہائی‘ ہُو کا عجیب عالم تھا۔ جنات اپنے بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے۔ جنات کے بچے مجھے چھیڑنے کیلئے دوڑے کیونکہ بچے تو بچے ہی ہوتے ہیں چاہے وہ انسان کے ہوں جانور کے یا جن کے‘ ان کے مزاج میں شرارت ہوتی ہی ہے۔ ایک بچہ دوسرے سے کہنے لگا آو اسکی ٹانگ کھینچتے ہیں اور اس کو گرا تے ہیں‘ دوسرا کہنے لگا نہیں اسکے سر میں مکا مارتے ہیں ہر بچے کو کوئی نہ کوئی شرارت سوجھ رہی تھی۔ وہ ہنستے کھیلتے اچھلتے‘ کودتے‘ میری طرف بڑھ رہے تھے۔ دور ہی سے ایک بوڑھی جننی نے بچوں کو ڈانٹا اور کہا خیال کرو۔ یہ حزب البحر کا عامل ہے۔ اس سے بچ کر رہنا۔ بچے ایسے بھاگے جیسے کوا پتھر سے بھاگتا ہے۔
 
حزب البحر کی بات چلی‘ تو میں نے حزب البحر کا چلہ کیا چونکہ حاجی صاحب اور صحابی بابا کی سرپرستی توجہ اور شفقت میرے ساتھ تھی۔ انہوں نے نوچندی جمعرات سے اس عمل کوشروع کرنے کا فرمایا میں نے نوچندی جمعرات کو دو کفن کی چادریں‘ ایک سفید ٹوپی بہت سی خوشبو‘ بڑا سا لوہے کا برتن جس میں مکمل 18 کلو سرسوں کا تیل آجائے اور اسمیں گلاب‘ چنبیلی اور رات کی رانی کی تیز خوشبو ڈالی اور ساتھ ایک بڑی سی بتی ڈالی جسکی لمبائی پانچ میٹر تھی۔ پانچ فٹ گہرا پانچ فٹ چوڑا مٹی کا ایک گڑھا کھود کر اس تیل کے برتن اور بتی کا چراغ جلایا اور حالت کفن میں بیٹھ کر روزانہ حزب البحر 5555 بار پڑھنا شروع کردیا۔ تین بہت بڑے اور موٹے سانپ میرے اردگرد ہر وقت رہتے وہ بظاہر تو سانپ تھے لیکن دراصل وہ جنات تھے جو کہ حفاظت کیلئے مقرر تھے چونکہ یہ عمل جلالی ہے پڑھتے ہوئے ساتھ بارش کا پانی مجھے چسکی چسکی اسلئے پینا تھا کہ منہ میں لعاب خشک ہوکر عمل کی حدت اور حرارت کی وجہ سے آگ پیدا ہوجاتی تھی اس آگ کو یا تو زمزم کا پانی یا پھر بارش کا پانی ختم کرسکتا ہے۔ ہاں اتنی اجازت ضرور تھی کہ اس گھڑے کی دیوار سے ٹیک لگاسکتے ہیں۔ حزب البحر میرے خیال میں اسکا عمل صرف جنات ہی کراسکتے ہیں اگر کوئی مخلصین جنات میسر ہوں کیونکہ جن کسی عمل وغیرہ سے قابو میں نہیں آتا بلکہ جن موقع کی تلاش میں ہوتا ہے موقع ملتے ہی وہ نقصان پہنچا دیتا ہے ہاں اگر بڑوں کی برکت سے جنات سے دوستی ہوجائے یا میری طرح جسے بچپن سے جن محبوب رکھتے ہوں بلکہ مجھ پر تو جن عاشق ہیں تو ایسے شخص کیلئے عمل کرنا کبھی مشکل نہیں ہوتا کیونکہ دوران عمل چڑیلوں‘ دیو‘ جنات‘ پریوں اور لاہوتی‘ ناسوتی‘ ملکوتی‘ جبروتی‘ مخلوقات کے طرح طرح کے شدید حملے شروع ہوجاتے ہیں اسلئے جو لوگ حزب البحر کے عامل ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں وہ پڑھ ضرور لیتے ہیں لیکن عامل ہونا بہت دور کی بات ہے مجھے اپنی مطلوبہ تعداد اس گڑھے میں حالت کفن میں پوری کرنا تھی۔ میں نے اپنی زندگی میں حزب البحر کے بیشمار عمل کرنے والوں کو یا زندگی سے یا شعور سے یا پھر رزق یا اولاد سے ہاتھ دھوتے دیکھا۔عمل کے ٹھیک ساتویں دن ایک ایسا ہولناک منظر میرے سامنے آیا اگر میرے اردگرد جنات سانپ کا پہرہ اور میری پشت پر بڑے طاقتور جنات کا ہاتھ نہ ہوتا .................جاری ہے

(قسط نمبر12 )

واقعہ کچھ یوں ہوا پڑھتے پڑھتے مجھے محسوس ہوا ایک جنگل ہے۔ دو میاں بیوی ہیں‘ ان کے بہت سارے بچے ہیں‘ بچے کھیل رہے تھے‘ تھوڑی ہی دیر میں میاں بیوی میں جھگڑا شروع ہوگیا۔ بیوی نے میاں کو کوسنا شروع کردیا تو کماتا نہیں‘ ہڈحرام ہے‘ سارا دن گھر پڑا رہتا ہے‘ بچے بھوکے مررہے ہیں‘ پہننے کو کپڑے نہیں‘ لباس نہیں‘ گھر کی چھت نہیں‘ نیچے کا فرش نہیں‘ اس طرح کی سخت تلخ باتیں بیوی مسلسل کہے جارہی تھی۔ میاں پہلے تو تھوڑی دیر سنتا رہا پھر اسے بھی غصہ آگیا پھر اس نے بھی بولنا شروع کیا اور غلیظ اور گندی زبان استعمال کرنا شروع کردی اور پھر تھوڑی دیر میں میاں نے قریبی درخت سے شاخ توڑی اور اس سے بیوی کو مارنا شروع کردیا‘ اتنا مارا کہ اس کو لہولہان کردیا پھر بچوں کو بھی مارنا شروع کردیا بیوی بے ہوش ہوکر گر گئی۔ میاں بچوں کو بھی مار رہا تھا بچے لہولہان ہوکر مسلسل گرتے جارہے تھے وہ مسلسل گالیاں دے رہا تھا۔ پھر اس نے جنگل سے خشک لکڑیاں اکٹھی کرنا شروع کردیں۔ لکڑیاں اکٹھی کیں نامعلوم کیا بلا تھی لکڑیوںکو آگ لگائی اور پھر اس نے اپنے بچوں کو ایک ایک کر کے آگ میں ڈالنا شروع کردیا۔ ایک کہرام‘ چیخ و پکار جلنے کی سخت بدبو‘ ہیبت ناک منظر‘ جو گمان اور الفاظ سے بالاتر۔ انسانی عقل‘ شعور احساس و ادراک اس کو بیان نہیںکرسکتا۔ جب سارے بچے ختم ہوگئے تو پھر اس نے بیوی کوبھی اٹھا کر آگ میں پھینک دیا۔
 
اب وہ ظالم میاں اپنے بیوی بچوں کو خوشی سے جلتا ہوا دیکھ رہا تھا حتیٰ کہ اس نے ان کی راکھ بنانے کیلئے جنگل کی سوکھی پتلی شاخیں اس آگ کے الاو کیلئے ڈالنا شروع کر دیں‘ اب اس نے الاو کے گرد چکر لگاتے ہوئے جھومنا شروع کردیا اور وہ کسی نامعلوم آواز میں باتیں بھی کررہا تھا اور قہقہے بھی لگارہا تھا یہ منظر بہت طویل دیر تک جاری رہا میں منظر بھی دیکھ رہا تھا اور مسلسل حزب البحر پڑھ رہا تھا۔ مجھے میرے مخلص جنات دوستوں نے پہلے ہی بتا دیا تھا کہ آپ کو ڈرانے بھگانے اور پریشان کرنے کیلئے بہت زیادہ محنت کی جائے گی اور حیرت انگیز مناظر دکھائے جائیں گے بس اپنے آپ کواعصاب اور خیال کے اعتبار سے مضبوط رکھنا۔ اگر تھوڑا سا بھی جھٹکا لگا اور ڈر گئے تو بہت بڑا نقصان ہوسکتا ہے۔ اب میں یہ سب منظر دیکھ بھی رہا تھا اور مجھے جنات دوستوں کی ہدایات یاد آرہی تھیں اور پھر اس وحشی کے قہقہے آگ کے الاو کے اردگرد اسکا جھومنا‘ آگ کے اندر مسلسل بیوی بچوں کے جلنے‘ گلنے سڑنے اور کھوپڑیوں کے ترخنے کی آوازیں‘ یکایک وہ وحشی رک گیا اور متلاشی نظروں سے ادھر ادھر دیکھنے لگا اور اونچی آواز میں کہنے لگا سب جل گئے ابھی ایک شخص باقی ہے وہ کہاں ہے‘ وہ علامہ پراسراری نام لیکر مجھے تلاش کرنے لگا کبھی جنگل کے اس کونے‘ کبھی دوسرے کونے‘ پھر آگ کی طرف آتا اور لکڑیاں اکٹھی کرتا۔ میرا نام لیتا‘ آگ بھڑک رہی تھی‘ شعلے تیز ہورہے تھے‘ آگ کی گرمی کی شدت اور حدت میں گڑھے میں محسوس کررہا تھا۔
 
کفن کی چادریں‘ میرا جسم پسینہ پسینہ ہوگیا مٹی بھیگ گئی‘ پسینے کے قطرے ایسے ٹپک رہے تھے جیسے بارش کا پانی‘ بہت دیر وہ مجھے تلاش کرتا رہا۔ آخر کار مجھ پر اس کی نظر پڑی اس نے وحشیانہ انداز سے قہقہہ لگایا اور مجھے دور سے پکڑنے کیلئے دوڑا اب وہ جس تیزی سے میرے قریب آرہا تھا اس کی آنکھوں سے وحشت اس کے قہقہوں سے وحشت‘ اس کی چال‘ ڈھال‘ انداز سب قاتلانہ‘ مجھے احساس تک نہیں تھا کہ اتنا بڑا خوف آسکتا ہے۔ لیکن ایک پل میں حاجی صاحب کی آواز میرے کانوں میں گونجی گھبرانا نہیں‘ ڈرنا نہیں‘ یہ عمل سے ہٹانا چاہتا ہے تم تک ہرگز نہیں پہنچ سکے گا اگر تھوڑا سا بھی چوک گئے تو یہ کامیاب ہوجائے گا اور تم زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھو گے۔ یقین جانیے یہ لفظ میرے کانوں میں پڑتے ہی میں اپنے مکمل ہوش و حواس اور جوش کی مکمل طاقت کے ساتھ حزب البحر پڑھنے میں مشغول ہوگیا جب وہ میرے قریب آیا اور اس نے مجھے پکڑنا چاہا ‘ میں مطمئن بیٹھا رہا اس کے ہاتھ میری طرف بڑھے مجھے شعوری طور پر اس کے ہاتھوں کا لمس محسوس ہوا چونکہ نہ میں چونکا اور نہ ڈرا بلکہ سوفیصدمطمئن سامنے پڑے چراغ کی لو پر نظریں جمائے اپنا عمل جاری کیے ہوئے تھا کیونکہ سارا منظر میں اس چراغ کی لو میں دیکھ رہا تھا وہ وحشی پیچھے ہٹ گیا اور شکست اور ناکامی سے نیچے گرپڑا کہنے لگا ہمارا پہلا وار تجھ سے خطا گیا ٹھیک ہے تجھ سے نمٹ لیں گے۔
 
میں روزانہ حزب البحر کے مطلوبہ عمل کو کررہا تھا ایسے انوکھے‘ انجانے‘ خوفزدہ کرنے والے طرح طرح کے مناظر دیکھ رہا تھا چالیس دن میں نے اس گڑھے میں گزارے ہر روز نیا تماشا‘ نئی کہانی‘ نئی داستان ہوتی تھی اگر میں آپ کو روز کی کہانیاں بتانا شروع کردوں میرے صرف ایک چلہ پر پوری کتاب بن سکتی ہے اور باتیں بھی ایسی انوکھی ہوں گی عام قارئین تو دور کی بات بڑے بڑے وہ عامل جو شاید کبھی کوئی عمل کرکے کسی مقصد تک پہنچے ہوں یا انہیں کبھی کوئی منظر اس طرح نظر آرہا ہو کبھی بھی میری بات کو ہرگز تسلیم نہیں کریں گے۔ ویسے بھی جب سے میں نے اپنی زندگی کے انوکھے لاہوتی پراسرار واقعات لکھنا شروع کیے ہیں بے شمار لوگ ایسے ہیں کہ انہیں یقین ہی نہیں آتا کہ ایسا ممکن بھی ہوسکتا ہے لیکن یہ میرا اور میرے رب کا معاملہ ہے جو میں آپ کے سامنے بیان کررہا ہوں یہ سوفیصد حقیقت بلکہ حقیقتوں میں سے بھی بڑی حقیقتیں ہیں۔ مجھے ایک بات کی خوشی ضرور ہے کہ میرے زندگی کے آزمودہ بتائے ہوئے وظائف اور تجربات سے عبقری کے لاکھوں قارئین کو بہت نفع ہورہا ہے۔
میں نے 40 دن حزب البحر کا عمل کیا اس دوران بہت سے واقعات رونما ہوئے چند واقعات آپ کو سنائے دیتا ہوں۔
 
ایک دفعہ یوں ہوا ایک چیونٹی میرے اوپر چڑھنے کی کوشش کرتی میں انگلی سے اسے دور کرتا پھر چڑھتی پھر دور کرتا پھر چڑھتی‘ میں اپنی توجہ وظیفہ کی طرف کرنا چاہتا تھا باوجود توجہ کے بار بار میری توجہ ہٹ رہی تھی۔ جاری ہے

Wednesday 22 May 2013

(قسط نمبر 13)

پھر توجہ اس طرف کرتا پھر ہٹ جاتی‘ کوئی طاقت ایسی تھی جو مجھے عاجز کرنے کی کوشش کررہی تھی لیکن میں عاجز نہیں ہورہا تھا‘تھوڑی ہی دیر میں اس کا جسم بڑھنا شروع ہوگیا لیکن اب وہ مجھ سے دور ہوگئی۔ وہ میری طرف بڑھنا چاہتی تھی لیکن درمیان میں کوئی نورانی دیوار اسے میرے قریب نہیں آنے دے رہی تھی‘اب اس کا جسم اور بڑھتے بڑھتے ایک بڑی چڑیا کے برابر ہو گیا۔ جسم کا بڑھنا اور اس کا میری طرف بڑھنا یہ دونوں کیفیتیں جاری رہیں۔ جسم بڑھتے بڑھتے بلی کے برابر ہوگیا اس کے غرانے کی آوازیں آنے لگیں‘ جسم بڑھتے بڑھتے کتے کے برابر ہوگیا حتیٰ کہ جسم ایک شیر اور ببر شیر کے برابر ایسا خطرناک اور اس کے جسم سے ایسی سخت بدبو کہ ایسے محسوس ہو کہ جیسے مجھے ابھی قے آجائے گی‘ طبیعت میں سخت بے زاری ‘بے چینی بڑھانے کی مسلسل کوشش کی جارہی تھی۔ لمحہ بہ لمحہ بے چینی بڑھ رہی تھی اور چیونٹی سے شیر کی طرف بڑھنے والا مسلسل جسم بڑھ رہا تھا اور میری طرف لپک رہا تھا‘ درمیان میں نورانی دیوار اس کو روک رہی تھی‘ اب میں وظیفہ بھی پڑھ رہا تھا اور دیوار کے بارے میں بھی سوچ رہا تھا‘ یہ کونسی دیوار ہے کہ اتنی خوفناک چیز اس کی وجہ سے میری طرف بڑھنے سے رک رہی ہے‘تو میرے کانوں میں صحابی باباکی مانوس آواز آئی‘ تمہیں یاد ہے۔ اس40 دن کے عمل سے پہلے تم نے مسلسل 40 دن بہت بڑی مقدار میں مال صدقہ کیا تھا‘ یاد رکھو صدقہ جتنا زیادہ ہوگا‘ جتنا زیادہ مستحقین کو تلاش کرکے دیا جائیگا‘ وہی صدقہ اسی طرح کی نورانی دیوار بن کر صدقہ دینے والے کے اردگرد ہر وقت رہتا ہے اور اسی طرح کے ہر حملہ آور سے صدقہ کرنے والے کی حفاظت کرتا ہے
بس یہ لفظ سننے تھے‘ مجھے سمجھ آگیا وہ جو میں نے40 دن مسلسل غریب مستحقین اور ایسے لوگوں کو جو سوال نہیں کرتے تلاش کرکے روزانہ 4300روپے صدقہ کیاتھا آج وہی صدقہ اس خونخوارسے میری حفاظت کا ذریعہ بن رہا ہے۔خیر وہ جسم اور بڑھ گیا حتیٰ کہ گائے تک پہنچ گیا اب اس کی آوازیں اور تیز ہوگئیں اس کے منہ سے جھاگ نکلنا شروع ہوگئی پھر اس کی زمین پر گرنے والی ہرجھاگ کا قطرہ شعلہ بن کر آگ کی طرح بھڑک رہا تھا۔ پھر تھوڑی ہی دیر میں اس کے منہ سے شعلے نکلنا شروع ہوئے‘ اس کی حرارت میں محسوس کررہا تھا لیکن ان شعلوں کا نقصان مجھے نہیں ہورہا تھا کیونکہ اس صدقہ کی نورانی دیوار میری حفاظت کررہی تھی۔ کچھ دیر کے بعد اس کا جسم ہاتھی بلکہ اونٹ سے بھی اونچا ہوگیا‘ میرامحتاط اندازا ہے کہ اس کا جسم تقریبا500فٹ تک پھیلا ہوا اور 30۔40فٹ لمبا ہو گا۔ اس کی آوازیں بہت بھیانک‘ خوفناک اور تیز تھیں۔ مجبوراً مجھے اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونسنا پڑیں۔
آخر اس نے کہنا شروع کردیا مجھ سے بچنا ہے تو حزب البحر پڑھنا چھوڑ دو‘ میں نے پڑھنا نہ چھوڑا‘ میںتوجہ‘ دھیان سے حزب البحر پڑھ رہا تھا‘ ادھر میں توجہ دھیان بڑھاتا‘ ادھر اس کا چنگھاڑنا‘ ڈرانا اورآوازیں اور زیادہ بڑھ جاتیں۔ بہت دیر یہ سلسلہ چلتا رہا‘ یکایک منظر بدل گیا‘ میں نے دیکھا کہ دور سے میری مرحومہ والدہ محترمہ رحمتہ اللہ علیہ بہت خوبصورت لباس میں تشریف لارہی ہیں اور ان کے ہاتھ میں بجلی نما چھڑی ہے‘ وہ جس چیز کو مارتی ہیں وہ چیز خاکستر ہوجاتی ہے‘ ان کی نورانی شکل اوران کے چہرے پر مسکراہٹ دیکھ کر مجھے ان کی محبت میں بیتے وہ لمحے ایسے یاد آئے کہ میں پل میں ان کی محبت میں ایسا کھو گیا کہ بس انتظار ہی کررہا تھا کہ میں اٹھ جاوں اور جاکر ان کے قدموں میں لپٹ جاوں یا وہ میرے قریب آجائیں۔ انہوں نے اس خونخوار بلا کو دور سے ہی چھڑی ماری ‘وہ خونخوار بلا وہیں راکھ ہوگئی‘ میری بے تابی اور بڑھ گئی اور اندر اندر ہی دل میں خیال جاں گزیں ہونے لگا کہ ماں کی ذات کتنی محبت کرنے والی ہے ان حالات میں بھی وہ میری محبت اور مجھے نہیں بھولیں۔
اسی اثناءمیں والدہ محترمہ میرے قریب آئیں‘میرے جی میں تھا کہ اٹھ کر ان کے قدموں سے لپٹ جاوں لیکن دوبارہ پھر وہی آواز میرے کانوں میں گونجی خیال کرنا یہ فریب کا نیا رنگ ہے‘ حرکت نہیں کرنی‘ توجہ نہیں کرنی‘ بس یہی فقرے میرے کانوں میں گونجے اور میں اس فریب کی تہہ تک پہنچ گیا‘ میرے آنسو نکل آئے‘ اے کاش!یہ حقیقت ہوتی‘ کہانی نہ ہوتی‘ میں اپنی والدہ مرحومہ رحمتہ اللہ علیہ کے قدموں سے لپٹ جاتا۔ میں توجہ سے عمل کررہا تھا۔ والدہ مرحومہ کے روپ میں وہ بلا بہت دیر تک مسکراتی مجھے دیکھتی رہی‘ 100 فیصد والدہ مرحومہ کی آواز میںوہ خونخواربلامجھے بلاتی اور پکارتی رہی‘ جب میں نے بالکل توجہ نہ کی تو ایک دم دھماکہ ہوا‘ زمین پھٹی اور وہ چیز اس کے اندر گم ہوگئی‘ دور ایک آواز جسے صدائے بازگشت کہتے ہیں‘ مجھے سنائی دی کہ تم ہمارے وار سے بچ گئے‘ ورنہ آج ہم تمہیں وہ سبق سکھاتے کہ تم یاد رکھتے۔ چراغ میرے سامنے مسلسل جل رہا تھا‘اس کی رسی جل جاتی تو میں اونچی کردیتا‘ تیل جل رہا تھا‘ میں مسلسل عمل پڑھ رہا تھا۔عمل سے روکنے کیلئے انوکھی کہانیاں اور ڈراونے خوفناک مناظرمسلسل سامنے لائے جارہے تھے۔40 ویں دن اچانک میں نے محسوس کیا کہ مجھے چراغ کا شعلہ نظر نہیں آرہا بلکہ صرف بتی‘ تیل اور برتن نظر آرہے ہیں۔ میں سمجھا کہ چراغ بجھ گیا ہے۔ میں بہت پریشان ہوا حصار سے ہٹ نہیں سکتا تھا۔ آخر کیا کرتا کہ اسی اثناءمیں صحابی بابا‘ حاجی صاحب اور ان کا بیٹا عبدالسلام اور دوسرے بڑے بڑے طاقتور جنات اور لاکھوں کروڑوں ان کے غلام‘ خدام پھولوں کے ہار لیے ہوئے میرے پاس تشریف لائے‘ چونکہ موسم سرماتھا‘ دن ڈوبنے کے قریب تھا‘ مجھے صحابی بابا نے گلے سے لگایا‘ مبارکباد دی۔ خوش ہوئے کہ عمل مکمل ہوگیا‘ اس عمل کے 313 موکلات میرے تابع ہوگئے ہر موکل کے تابع 3 کروڑ تین سو 13 لاکھ جنات ہیں۔ فرمایا! اس عمل کی تاثیرزندگی بھر باقی رکھنے کیلئے تمہارے لیے گناہ کبیرہ‘ رزق حرام‘ جھوٹ سے پرہیز‘ نگاہوں کو پاک اور تنہائیوں کو پاک رکھنا ضروری ہے۔ جاری ہے